• صارفین کی تعداد :
  • 2936
  • 2/17/2013
  • تاريخ :

قرآني آيات کي سمجھ

قرآن

اپنے راستوں کا انتخاب ہمارے ليۓ لازمي ہے يا اختياري ؟

آيات کا غلط مفہوم مت ليں

مثال کے طور پر خدا تعالي نے  اپنے بندوں کو حکم ديا  : ميري تخليق پر سوچ بچار کرو ، نماز قائم کرو ،  علم حاصل کرو ، جہاد کرو ، حلال روزي کماۆ ، شادي کرو ،  حج ادا کرو ،  دشمنوں سے دور رہو  وغيرہ وغيرہ  - يہ صاف ظاہر ہے کہ ان تمام امور کي ايک ساتھ انجام دھي ممکن نہيں اور  ہر ايک کے ليۓ خاص وقت اور شرائط مقرر ہيں -

د - خدا تعالي کي ذات نے نہ صرف  حکم نہيں ديا کہ ہر بات کو سنو بلکہ  بہت  تاکيد کي ہے کہ ہر بات کو مت بولو ، نہ سنو اور  نہ  قبول کرو - اب يہ کيسے ممکن ہے کہ اس کے برعکس بيان کرے اور  خوشخبري سناۓ  اور وہ  جو  دل کرے بات کريں ؟  فرمان ہے کہ بہت سارے لوگ مفت ميں باتيں کرنے والے ہوتے ہيں -  بہت سارے جھوٹے ہوتے ہيں -  ايسے لوگوں کو اگر آپ ديکھيں کہ  خدا اور دين کے خلاف باتيں کرنے ميں مصروف ہيں  تو ايسے موقع پر آپ يا تو  ان کي بحث کا رخ دوسري طرف موڑ ديں يعني موضوع کو تبديل کر ديں يا  ان کے ساتھ مت بيٹھيں -  ان کي منافقانہ گفتگو سے بچيں  - ---- وغيرہ وغيرہ -  مثال کے طور پر

«وَمِنَ النَّاسِ مَن يشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلْمٍ وَيتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ» (لقمان، 6)

ترجمہ : - اور انسانوں ميں کچھ ايسے بھي ہيں جو بيہودہ کلام خريدتے ہيں تاکہ ناداني ميں (لوگوں کو) راہ خدا سے گمراہ کريں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائيں، ايسے لوگوں کے ليے ذلت ميں ڈالنے والا عذاب ہو گا -

«وَ إِذَا رَأَيتَ الَّذِينَ يخُوضُونَ فِي آياتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يخُوضُواْ فِي حَدِيثٍ غَيرِهِ وَ إِمَّا ينسِينَّكَ الشَّيطَانُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ» (الأنعام، 68)

ترجمہ : - اور جب آپ ديکھيں کہ لوگ ہماري آيات کے بارے ميں چہ ميگوئياں کر رہے ہيں تو آپ وہاں سے ہٹ جائيں يہاں تک کہ وہ کسي دوسري گفتگو ميں لگ جائيں اور اگر کبھي شيطان آپ کو بھلا دے تو ياد آنے پر آپ ظالموں کے ساتھ نہ بيٹھيں-

( جاري  ہے )

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان