اسلامى تمدن ميں علمى مراكز
اسلام كے نئے تشكيل شدہ نظام كے استحكام اور اسلامى معاشرے كے اندرونى رشد و كمال سے بتدريج تعليمى مراكز وجود ميں آگئے جنہوں نے علوم و فنون كى پيدائشے اور وسعت ميں اہم كردار ادا كيا، پہلا تعليمى ادارہ كہ جو اس عنوان سے وجود ميں آيا اسكا نام بيت الحكمة تھا يہ بغداد ميں تعمير ہوا اور حكومتى خزانہ يا بيت المال كى رقم سے چلتا تھا_
يہ دانشوروں، محققين اورخصوصاً ايسے لائق مترجمين كے اجتماع كا مركز تھا كہ جو يونان كى علمى و فلسفى كتب كو عربى ميں ترجمہ كيا كرتے تھے، بيت الحكمة كہ جو مسلمانوں كا بغداد ميں پہلا كتابخانہ تھا اسكى بنياد ہارون الرشيد نے ڈالى، اس سے پہلے منصور عباسى كہ جس كے زمانہ ميں ترجمہ كے كام كا آغاز ہوا تھا اس نے حكم ديا تھا كہ ديگر زبانوں سے كتب كو عربى ميں ترجمہ كيا جائے بعد ميں يہى كتب بيت الحكمة كى اساس قرار پائيں_
مامون كے زمانہ ميں بيت الحكمة كو وسيع كيا گيا، اس نے كتابوں سے لدے ہوئے سو اونٹ بغداد منگوائے اور بظاہر يہ كتب اس قرار داد كے تحت مسلمانوں كودى گئيںجو مامون اور روم كے بادشاہ مشل دوم كے در ميان طے پائي، نيز مامون نے 3لاكھ دينار ترجمہ كے كام پر خرچ كيے، اس دور ميں بيت الحكمة كے علاوہ ديگر علمى ادارے بھى موجود تھے ان اداروں ميں سے ايك ''دار العلوم'' تھا يہ ايك عمومى لا ئبريرى كى شكل ميں تھا، اسى طرح مصر ميں ايك تعليمى مركز دار العلم فاطميون تھا، يہ ادارہ الحاكم با مراللہ جو كہ مصر ميں فاطمى خليفہ تھے انكے حكم سے 395 ہجرى قمرى قاہرہ ميں تعمير ہوا، اس ادارہ ميں تقريبا دس لاكھ كتب موجود تھيں ، موصل كا دار العلم جعفر بن محمد ہمدان موصلى نے تعمير كيا يہ وہ پہلا علمى مركز تھا كہ جس ميں تمام علوم سے كتابيں جمع كى گئي تھيں موجودہ لبنان كے ايك شہر طرابلس ميں پانچويں صدى ہجرى كے آخر ميں ايك دارالعلم سوا لاكھ جلد كتابوں كے ساتھ موجود تھا_
اسلامى دور كے ديگر بہت اہم مشہور علمى مراكز نظاميہ مدارس تھے، پانچويں صدى كے آخرى پچاس سالوں ميں خواجہ نظام الملك نے بغداد ، نيشابور ، اور ديگر شہروں ميں مدارس كى تعمير كر كے نظاميہ نام كے مدارس كے سلسلے كى بنياد ركھى ، بغداد كا نظاميہ جو كہ 459 قمرى ميں تاسيس ہوا اس ميں ابواسحاق شيرازى تدريس كيا كرتے تھے، ان كے بعد اس مدرسہ ميں تدريس كى سب سے بڑى كرسى امام محمد غزالى كو نصيب ہوئي ، اس كے بعد عالم اسلام ميں مدارس كا جال بچھ گيا، سلجوقيوں كى مملكت ميں جو مدارس اور علمى مراكز خواجہ كے حكم سے تعمير ہوئے تو وہ خواجہ نظام الملك كى طرف منسوب ہونے كى وجہ سے نظاميہ كے عنوان سے مشہور ہوئے _
بغداد كے نظاميہ كے علاوہ اور مدارس نظاميہ بھى قابل ذكر ہيں مثلا نيشابور كا نظاميہ خواجہ نظام الملك اور ديگر سلجوقى بادشاہوں كى نيشابور شہر كى طرف خصوصى توجہ كے باعث تاسيس ہوا ، مشہور افراد مثلا امام موفق نيشابورى، حكيم عمر خيام، حسن صباح، امام محمد غزالى اور ان كے بھائي امام احمد اور امام محمد نيشابورى نے اس مدرسے ميں تربيت پائي، نيشابور كا يہ نظاميہ مدرسين اور مشہور فقہاء كى تعداد جو كہ وہاں تعليم ديتے تھے، كے باعث بغداد كے نظاميہ كے بعد دوسرا مقام ركھتا تھا، اسى طرح اصفہان اور بلخ كے مدارس نظاميہ بھى نامور اساتذہ كے حامل تھے_
مجموعى طور پر كہا جاسكتا ہے كہ عالم اسلام ميں علمى و تعليمى مراكز متعدد اور متنوع تھے، ان مراكز ميں سے وسيع اور غالب ترين علمى مراكز مساجد تھيں كہ جو سارے عالم اسلام ميں پھيلى ہوئي تھيں ، مساجد مسلمانوں كے دينى اجتماع كے سب سے پہلے مراكز ميں شمار ہوتى تھيں_
حتى كہ مدارس كى عمارتيں بھى مساجد كے نقشہ كے مطابق ہوتى تھيں ايسى معروف مساجد جو اپنى تاسيس كے آغاز ميں يا كچھ عرصہ بعد ان ميں لائبريرياں بھى تشكيل پائيں، عالم اسلام كے اہم شہروں ميں بہت زيادہ تھيں مثلا مسجد جامع بصرہ، مسجد جامع فسطاط ، مسجدجامع كبير قيروان، مسجد جامع اموى دمشق، مسجد جامع زيتونہ جو كہ تيونس ميں ہے، مسجد جامع قرويين فاس اور مسجد جامع الخصيب اصفہان_
عالم اسلام كے ہسپتال كہ جنہيں '' مارستان'' بھى كہا جاتا تھا مريضوں كے علاج كے ساتھ ساتھ اطباء كى تحقيق اور مطالعہ كے مراكز بھى شمار ہوتے تھے، اور ان ميں صرف اسى علم پر لائبريرياں بھى تھيں، مثلا مارستان فسطاط ، مارستان الكبير منصورى قاہرہ ، مارستان نورى بغداد ، رى كا ہسپتال اسى طرح علمى مراكز ميں سے رصد خانے ( علم ہيئت كے مراكز) بھى تھے ، عالم اسلام ميں بہت بڑے متعدد رصد خانے تعمير ہوئے جن كا شمار دنيا كے سب سے بڑے اور اہم ترين رصد خانوں ميں ہوتا تھا، كہ جن ميں علم رياضى اور نجوم كى جديد ترين تحقيقات ہوتى تھيں، رصد خانوں ميں اسلامى دانشوروں كے بہت سے انكشافات اور تحقيقات صديوں بعد بھى يورپ ميں تجزيہ و تحليل كا مركز قرار پائے ، ان رصد خانوں ميں اہميت كے لحاظ سے مثلا مراغہ اور سمرقندكے رصد خانوں كا نام ليا جاسكتا ہے_
ان تمام اسلامى تعليمى اداروں ميں دو علمى مركز بہت زيادہ اہميت كے حامل ميں ان دو ميں ايك ''ربع رشيدي'' ہے كہ بہت سے علماء كى آمد و رفت كا مقام تھا كہ جو وہاں علمى كاموں ميں مصروف تھے ،دوسرا ''شنب غازاني''كہ جو ايلخانوں كے دور ميں تعمير ہوا كہ جس ميں مختلف افراد كے درميان متعدد علمى معلومات كا تبادلہ ہوا كرتا تھا_
مۆلف: ڈاكٹر على اكبر ولايتي
مترجم: معارف اسلام پبلشرز
شعبہ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
انٹرنيشنل اسلامک يونيورسٹي ملائشيا