کيونکر صرف فقيہ ہي کو حکومت کا حق حاصل ہے؟
اسلامي مفکرين اس بات کے قائل تھے کہ اسلامي حکومت کا اساسي قانون انسان سے بالاتر ہستي ايسے قانون سازوں کے طفيل سے عطا کيا گيا ہے جو خدائي علم کے چشمہ سے سيراب ہوئے ہيں، يہي وجہ کہ وہ ايک اچھے قانون کو خدائي تحفے کي نظر سے ديکھتے تھے کہ جس کا فراہم کرنا انسان کے بس کي بات نہيں ہے اور ايسي شرائط جو انسان کو سعادت کي راہ دکھا سکتي ہيں وہ صرف معاشرے پر اس قانون کرنے سے ہي حاصل ہو سکتي ہيں-
امام (رح) نے اس موضوع پر بھي وہ نظريات بيان کئے ہيں:
1- فقيہ ايک ايسي معرفت کے حصول ميں کامياب ہو سکتا ہے کہ جس کے نتيجے ميں وہ الہي اصولوں کي بنا پر وہ اساسي معاشرتي قوانين اور منشور بنانے پر قادر ہو سکتا ہے- اس کے بعد بشريت کا رنگارنگ عارضي اور ناقص عقلاني قوانين ميں پھنسے کي کوئي ضرورت پيش نہيں آئے گي جن ميں نہ صرف اعلي درجات اور فضيلت کے حصول کا کوئي امکان نہيں بلکہ بہت سے مواقع پر يہ قوانين، بشريت کو اندھيروں کي گہرائيوں کي سمت دھکيل ديتے ہين پس الہي قوانين کے لئے يہ کافي ہے کہ وہ قدرت پر تکيہ کريں اس کے بعد ايک ايسي اچھي حکومت کي تشکيل جو معاشرے کي مادي اور معنوي ضروريات کے مطابق ہو کوئي مشکل کام نہيں-
2- کہا جاتا ہے کہ امام (رح) اس بات کا صريحا اعتراف کرتے ہيں کہ ہر ايسي حکومت کہ جس کے ڈھانچے ميں ولايت فقيہ کي جگہ بھي رکھي جائے تو ضروري نہيں ہے کہ اس کي بنياد پر حتما ايک مطلوبہ حکومت صد در صد حاصل ہو سکے- ليکن وہ اس بات کے قائل ہيں کہ اگر چہ مطلوبہ حکومت عملي طور پر وجود ميں نہ بھي آ سکے تب بھي فقيہ کے اختيار ميں ايسے قواعد و ضوابط موجود ہيں وہ صحيح کو تشخيص دے سکتا ہے اور ايسے حکومت کو وجود ميں لانے کے ليے اس راستے پر عمل کر سکتا ہے- ليکن امام (رح) کي نظر ميں يہ علمي معرفت اپنے حامل کو قانون پر فوقيت نہيں ديتي حالانکہ فرد اس صورت ميں قوانين اور قانون سازي کے اصول و مباني کو اچھي طرح سمجھ سکتا ہے-
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
ماه رمضان ميں زکات نہ دينے سے پرہيز کريں گے