اقبال نے مثنوي کو مطالعہ کي کتاب سے عمل کي کتاب بنا ديا
جديد زمانے ميں مطالعہ رومي کي تحريک کا نقطۂ عروج اقبال کا تجزيۂ مثنوي ہے- اس سلسلے ميں اقبال کے مطالعۂ رومي کا امتيازي وصف يہ ہے کہ انہوں نے مثنوي کو محض مطالعہ کي کتاب سے اثباتي فکر و عمل کي کتاب ميں بدل ديا - ان کے نزديک مثنوي کي غايت تفريح يا (بلند تر سطح پر ) جدل و جدال نہيں بلکہ عمل اور فکر کي وہ تعمير ہے جس کے سہارے انسان عالمِ انفس و آفاق کي تسخير کر سکتا ہے اور ياد رہے کہ اقبال کي تسخير انفس و آفاق کا دائرہ اثر صرف ذات اور فرد کي اکائي تک محدود نہيں بلکہ اس کے قوسِ صعودي کي حدِّ ملت اور اس سے بھي آگے نوع انسان کے نوعي اور اجتماعي ارتقا ء کے بعيد ترين گوشوں سے جا ملتي ہے-
گذشتہ حصوں ميں يہ عرض کيا گيا ہے کہ اقبال نے مثنوي کو مطالعہ کي کتاب سے عمل کي کتاب بنا ديا - اس سے مراد يہ نہيں کہ اقبال سے پہلے مثنوي ايک بے اثر کتاب رہي - مثنوي اس سے پہلے بھي يقيناً بڑي با اثر ،مقبول اور مفيد کتاب ثابت ہوتي رہي ہے - (جيسا کہ گزشتہ صفحات ميں ثابت کيا گيا ) مگر اس ميں کچھ کلام نہيں کہ مثنوي کے فيوض کي جو حديں اقبال نے دريافت کي ہيں وہ ان سے پہلے کسي نے دريافت نہيں کيں اور چند مستثنيات کے سوا عموماً يہ نظر آتا ہے کہ مثنوي دانوں اور مثنوي خوانوں نے مولانا روم کي اس نصيحت پر عمل نہيں کيا جو انہوں نے (ايک روايت کے مطابق ) مثنوي کے مطالعہ کرنے والوں کے لئے لکھي تھي - ان کي نصيحت يا ہدايت يہ تھي-
’ مثنوي را جہتِ آں نگفتہ ام کہ حمائل کنند و تکرار کنند بلکہ زير پا نہند وبالائے اسماں روند کہ مثنوي نردبانِ معراجِ حقائق است نہ آنکہ نردبان را بگردن گيري و شہر بہ شہر بگردي ‘ ہر گز بر بامِ مقصود نردي و بمرادِ دل نرسي‘اورحق تو يہ ہے کہ اقبال تک مطالعہ ء مثنوي کي عمومي حيثيت يہي رہي جو ’حمائل کنندو تکرار کنند‘ ميں ہے- اقبال نے اس کمي کو محسوس کيا اور رومي کي ہم نوائي ميں جاويد (يا نثراد نَو ) کو يوں مخاطب کيا :-
(1) پيرِ رومي را رفيقِ راہ ساز
تا خدا بخشد ترا سوز وگداز
(2) شرح او کر دند ادراکش نديد
معنيء اوچوں غزال از مارميد
(3)رقصِ تن از حرفِ ا و آمو ختند
چشم راز رقص جاں بر دوختند
(4)رقصِ تن در گردش آرد خاک را
رقصِ جاں برہم زند افلاک را
(5) علم و حکم از رقصِ جاں آيد بدست
ہم زميں ہم آسماں آيد بدست
(6) رقصِ جاں آموختن کارے بود
غير حق را سو ختن کارے بُود
ترجمہ:- (1) پير رومي کو اپنا رفيق راہ بنا لے تاکہ خدا تجھ کو سوز و گداز عطا کرے-
(2) سب اس کي شرح کرتے ہيں اور اس کو کسي نے نہيں ديکھا اس کے معني غزالوں کي طرح بھاگ کھڑے ہوئے-
(3)اس سے لوگوں نے صرف رقصِ تن ہي سيکھا - اور رقصِ جان سے اپني آنکھيں بند کر ليں-
(4) رقصِ تن خاک کو گردش ميں لاتا ہے جب کہ رقصِ جاں افلاک کو برہم کر ديتا ہے
(5) علم و حکمت رقصِ جان کا باعث بنتے ہيں اور زمين و آسمان کو ہاتھ ميں لے ليتے ہيں-
(6) اصل کام تو رقصِ جاں سيکھنا ہے اور غيرِ حق کو جلا کر خاک کر دينا اس کا کام ہے-
مطالعہ ء مثنوي کے سلسلے ميں اقبال کا نصب العين يہي رقصِ جاں ہے جس سے علم و حکمت تک رسائي ہو تي ہے- ايسے علم و حکمت تک جس سے زمين و آسمان کي تسخير ممکن ہے- اقبال کے نزديک قرآن کے بعد جو کتاب اس مقصدِ عظيم کو پورا کر سکتي ہے و ہ مثنوي رومي ہے- اقبال کے مطالعہ مثنوي کا يہي پہلو نيا اور انوکھا ہے جس تک متقدمين و متاخرين ميں سے کوئي نہ پہنچا -
اقبال کے ميلانات کا ايک عجيب انداز يہ ہے کہ وہ مثنوي رومي کے اثر کا تو اعتراف کرتے ہيں مگر حديقۂ سنائي کا چنداں اعتراف نہيں کرتے اور عطار کي عظمت تو ان ميں مشکوک سي ہے- حالانکہ يہ دونوں بزرگ رومي کے مرشدانِ روحاني تھے-
ما از پيے ءسنائي وعطار آمديم
(ہم سنائي اور عطار کے لئے آئے ہيں- )
اس کا سبب يہ ہے کہ سنائي اور عطار کي کتابيں (اقبال کي نظر ميں ) اس رقصِ جاں يعني اس ذوق و شوق اور علم و حکمت سے محروم ہيں جس سے رومي کي مثنوي از سر تا پا لبريز ہے- حديقہ ميں اخلاقيات کا پہلو غالب ہے اور عطار کي مثنويوں ميں ظاہري دين داري پر زيادہ زور ہے- اقبال کي نظر ميں يہ دونوں باتيں کافي نہيں- اقبال کو جس شئے کي طلب ہے وہ ہے زندگي کا سوز اور ايک مثبت فلسفۂ حيات - ان مسائل ميں اقبال کو رومي سے بہتر کوئي رہنما ميسر نہيں آيا -
رومي آں عشق و محبت را دليل
تشنہ کاماں را کلامش سلسبيل
ترجمہ:- رومي جو عشق و محبت کي دليل ہيں- ان کا کلام تشنہ کاموں کے لئے سلسبيل ہے-
اقبال نے اپني شاعري سے بھي اپني پياس بجھائي ہے اور اپنے حکيمانہ خطبات سے بھي- مگر اقبال کا استفادہ صرف استفادہ ہي نہيں افادہ بھي ہے- انہوں نے رومي سے صرف ليا ہي نہيں ان کو کچھ ديا بھي ہے بہت کچھ !معتد بہ !اقبال کي پيشکش رومي کي بارگاہ ميں وہ نئي تعبيرو توجيہ مثنوي ہے- جس سے رومي کے خيالات ميں نئي تاباني ،نئي چمک پيدا ہو گئي ہے- رومي کي روح پہلي مرتبہ ان قيود سے آزاد ہوئي جن ميں پرانے فرہنگ نويسوں اور شرح نگاروں نے اس کو قيد کر ديا تھا - اقبال نے رومي کو جديد حکمت ميں متعارف کرايا ہے اور يہ ثابت کر ديا ہے کہ رومي کے پاس عصرِ حاضر کے ان مسائلِ پيچيدہ کے کامياب حل بھي موجود ہيں جن سے انسان حواس باختہ ہو کر اپني روشن تقدير سے مايوس ہوتا جا رہا ہے- موجودہ دور ميں دنيا کو ايک ايسے مذہب (يا مسلک فکر و عمل ) کي تلاش ہے جس کے اساسي اصولوں سے سائنس بھي انکار نہ کر سکے- اور ايک ايسے سائنسي نقطۂ نظر کي ضرورت ہے جس ميں وجدانيات کے وجود کو تسليم کئے بغير چارہ نہ رہے زير کي اور عشق کا يہ اجتماع انسان کے روشن مستقبل کے لئے اتنا ہي ضروري ہے جتنا جسمِ انساني کے لئے آب و ہوا کا وجود- اقبال نے ان ميں سے اکثر مسائل کے حل رومي کے حوالے سے پيش کئے ہيں - اور يہ حکمتِ رومي کي سب سے بڑي خدمت ہے-
اقبال نے رومي سے استفادہ ہي نہيں کيا - بلکہ ايک دبستانِ فکرِ رومي کي بنياد رکھي ہے ان کے زير اثر رومي کے مطالعہ و تجزيہ کي تحريک کو بڑا فروغ ہو ا ہے- چنانچہ اب اقبال کے خاص نقطۂ نظر سے رومي کے افکار کي چھان پھٹک کا کام بڑے زور سے ہو رہا ہے- يہ صحيح ہے کہ محض روماني ذوق و شوق کے خيال سے بھي رو مي کي تلاوت کا عمل پہلے سے کم نہيں مگر اقبال کے زير اثر ان کي حکمت کي تشريح کي طرف خاص توجہ کي جا رہي ہے- اس نقطۂ نظر سے سب سے نماياں کام ڈاکٹر خليفہ عبدالحکيم کا ہے جن کي کتاب حکمتِ رومي ، رومياتي ادب کي ايک ممتاز تصنيف ہے- جس سے فکر رومي کے بہت سے عقدے حل ہوئے ہيں- ان سب پہلوۆں سے اگر ديکھا جائے تو يہ محسوس ہوتا
ہے کہ جس طرح مطالعہ اقبال کے سلسلے ميں رومي کي مثنوي اور ان کے افکار ايک اہم بلکہ اہم ترين ماخذ کا درجہ رکھتے ہيں- اسي طرح مطالعۂ رومي کے سلسلے ميں اقبال کي شرح و تعبير يکتا اور منفرد حيثيت رکھتي ہے-
تحرير: ڈاکٹر سيد عبداللہ
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
مثنوي رومي کے مطالعے کي لہر نويں صدي ہجري کے آغاز ميں اور بھي تيز ہو گئي