انبيائے كرام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) كے بعض صفات
قرآن ميں انبيائے كرام(عليہم السلام) كے معنوي چہرے سے متعلق بحث كي تكميل كے لئے ضروري ہے كہ چند آيات كے ذريعہ پيغمبر اسلام (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) كے بارے ميں بھي اشارہ كرديا جائے- اگر چہ پيغمبر اسلام(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) كے سلسلہ ميں الگ سے مستقل اور مفصل بحث آئندہ كي جائے گي-
عبد
سورہ حديد كي نويں آيت ميں ارشاد ہے كہ "خدا ہي ہے جس نے اپنے بندہ (محمد(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) ) پر كھلي ہوئي نشانياں نازل كي ہيں" ہم ذكر كرچكے ہيں كہ لفظ عبد وہ بہترين صفت ہے جو انبياء عليہم السلام كے لئے استعمال ہوئي ہے- كيونكہ خدا كي بندگي ہي ميں آزادي ضمير، سربلندي، استقامت و پائداري، شہامت و اولوالعزمي اور تسليم و رضا جيسے صفات پوشيدہ ہيں-
كريم
سورہ حاقہ كي آيت: 41 ميں ارشادہے: "اِنّہُ لقول رسول كريم" بے شك يہ رسول كريم كا قول ہے اور پہلے بيان ہوچكا ہے كہ كريم كے معني بزرگي، كرامت نفسي اور درگزر كرنے كے ہيں-
سورہ قلم كي پانچويں آيت ميں ارشاد ہے: وَاِنّك لعليٰ خلق عظيم" بلا شبہ آپ عظيم و بہترين خلق و عادت كے مالك ہيں- اس آيت سے يہ پتہ چلتاہے كہ پيغمبر اسلام(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) بہترين خوبيوں، اخلاق حسنہ اور عظيم روحي صفات سے آراستہ تھے آپ ايسے با عظمت صفات كے حامل تھے كہ خود خدا بھي ان خصال و صفات كو "عظيم" كے لفظ سے ياد كرتا ہے-
سورہ "اعراف" كي آيت نمبر 158 ميں پيغمبراكرم(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) كے بارے ميں ارشاد ہے: "الذي يومن باللّہ وكلماتہ" وہ پيغمبر(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) جو خدا اور كلماتِ الہيہ پر ايمان ركھتا ہے- اپنے مقصدو ہدف پر ايمان ركھنا ايك ہادي و رہبر كے ضروري ومتاز صفات ميں سے ہے- جورہبر ہے اسے چاہيئے كہ جوكچھ وہ كہتا ہے اس پر يقين و ايمان بھي ركھتا ہو- ورنہ موسمي ليڈر اورخود خواہ رہبر تو اپنے خاص حالات كے تحت باتيں بناتے ہيں اوراپني پاليسيوں ميں تبديلياں لاكر پے در پے اپنے منافع و مصالح كے تحفظ كے تحت نئے نئے منصوبے پيش كرتے ہيں- انبياء كرام(عليہم السلام) كي ترقيوں كي اولين شرط خدا اور اس كے احكام پر ان كا محكم وپائدار ايمان تھا اور حضرت رسول اكرم(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) كے سلسلہ ميں اس حقيقت كي صراحت كي گئي ہے- سورہ آل عمران ميں ارشاد ہوتا ہے:
"فبما رحمۃ من اللّہ انت لھم ولو كنت فظا غليظ القلب لانفضو ا من حولك"
آل عمران 159
يعني لطف و رحمت پروردگار كي خاطر آپ لوگوں كے لئے نرم دل اور مہربان ہوگئے اور اگر بدخو و سخت دل ہوتے تو يہ لوگ آپ سے دور ہوجاتے اور پراگندہ ہوجاتے-
چنانچہ اخلاق آنحضرت(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) عديم المثال تھا- آپ نرم گفتار اور مہربان تھے- خشونت اور سخت گيري آپ ميں نام كو نہ تھي- سورہ والنجم كي آيات: 2، 3، اور 4 ميں ارشاد ہے:
"ماضلّ صاحبكم وما غويٰ وماينطق عن الھويٰ انّ ھو اِلّا وحي يوحيٰ"
يعني تمہارا پيغمبر نہ گمراہ ہے اور نہ دھوكہ دينے والا ہے وہ اپني خواہش نفساني كے تحت كلام نہيں كرتا، اور جو كچھ بھي كہتا ہے اس پر وحي نازل ہوئي ہے-
ان آيات كے ابتدائي فقروں ميں پيغمبر اكرم(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) كي ذات گرامي سے دھوكہ و فريب و گمراہي كي نفي كي گئي ہے اور اس كے بعد اس كا اضافہ كيا گيا ہے كہ آپكي باتيں ہوس و بيجا اغراض سے آلودہ نہيں ہوتيں اگر كسي ميں مذكورہ دو تين پہلو صحيح معني ميں نہ پائے جائيں تب بھي وہ انساني و معنوي فضائل و كمالات كا ايك اعليٰ نمونہ ہے- ساتھ ہي اس بات كي تائيد كہ جو كچھ آپ(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) فرماتے ہيں اس كا تعلق عالم غيب سے ہوتا ہے اور وہ وحي كي شكل ميں آپ پر نازل ہوتاہے- يہ امر خود آپ كے احكام و آثار كو كس قدر وقعت و عظمت عطا كرتا ہے-
قيام- سجود- سورہ شعراء كي ايك آيت نمبر218 ميں ارشاد ہے: " وہ خدا جو تمہيں ہنگام نماز قيام كي حالت ميں اور جب تم سجدہ كرنے والوں كے ہمراہ سجدہ ميں غلطاں ہوتے ہو ديكھتا ہے-" يہ آيت خدائے برتر كي عبادت و پرستش كے تحت پيغمبر اكرم(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) كے والا مقام اور اس كي بارگاہ ميں ان كے خضوع و خشوع كو ظاہركرتي ہے- آپ(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) كے اندر خدا كي عبادت و بندگي كا اس قدر انہماك ہے كہ خدا خود اس كا تذكرہ اس شان سے فرماتا ہے-
سورہ توبہ كي آيت: 128 ميں ارشاد ہے:
"لقد جاءَ كم رسول من انفسكم عزيز عليہ ما عنتّم حريص عليكم بالمومنين رۆف رّحيم" "درحقيقت تمہارے پاس تم ہي ميں ايك پيغمبر آيا ہے جس پر تمہاري تكاليف و مصائب شاق ہيں اور جو تمہاري نجات اور خوشبختي كا حد درجہ خواہاں ہے اور صاحبانِ ايمان پر بے انتہا مہربان و رحيم كرنے والا ہے-"
اگر اس آيت پر خوب دقت كي جائے تو عالم تاريخ كا ايك عالي ترين اور درخشاں ترين چہرہ اس ميں نظر آئے گا- ايسا شخص جس كي روح پر لوگوں كے رنج و غم، فقر، جہالت، اختلاف، ذلت غلامي، فساد و بدبختي گراں گزرتے ہيں اور وہ ان باتوں سے اپنے قلب پر ايك بوجھ محسوس كرتا ہے- يعني وہ سب سے زيادہ لوگوں كي فلاكت و بدبختي پر فكر مند ہوتا ہے اور ان كي پستي و جہالت پر رنجيدہ خاطر ہوتا ہے- يہ شخصيت ان سب سے الگ ہے جو صرف اپنے لئے سوچتے ہيں اوراپني فقر و ناتواني پر غمزدہ ہوتے ہيں- وہ تنہا سب كے درد اپنے دل ميں محسوس كرتا ہے-
ظاہر ہے كہ ايسي بلند و بالا روح كي حامل شخصيت بني نوع انسان كي نجات كے سلسلہ ميں كس قدر فدا كاري سے كام لے گي اور اسے لوگوں كي بھلائي كا كتنا خيال ہوگا- اس آيت سے ہميں يہ تعليم بھي ملتي ہے كہ آنحضرت(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) لوگوں كي سعادت و نيك بختي كے لئے بے انتہا حرص و طمع ركھتے ہيں يعني آپ(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) كي صرف لوگوں كي نجات و خوش بختي اور خدمت خلق كي فكر اور والہانہ شوق ہے- وہ شخص جس كي تمام تر فكرو كوشش لوگوں كي فلاكت و جہالت دور كرنا اور لوگوں كي خدمت كرنا ہو وہ خود غرض خود خواہ اور مطلبي نہيں ہوسكتا- اسے صرف اپنے نفع كي فكر نہيں ہوتي بلكہ وہ لوگوں پر حد درجہ مہربان اور سراپا رحم و كرم ہے-
وہ معاشرہ كي فلاح اور ہدايت و نجات كے كيف ميں اس قدر غرق ہے كہ لوگوں كي گمراہي و فلاكت پر رنج و غم ميں اتنا ڈوب جاتا ہے كہ خداوند عالم سورہ "فاطر" كي آيت نمبر8 ميں اسے خطاب كرتے ہوئے فرماتا ہے: "فلا تذھب نفسك عليھم حسرات" ان لوگوں كے سلسلہ ميں اس قدر رنج و افسوس نہ كرو (كہ اس رنج و غم ميں اپني جان سے ہي ہاتھ دھو بيٹھو) يہ مطلب قرآن كي متعدد آيتوں ميں آيا ہے- اور ان تمام آيتوں ميں پيغمبر اسلام(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) كو لوگوں كے سلسلہ ميں بے انتہا درد و الم كا احساس كرنے سے روكا گيا ہے- ان آيتوں سے معلوم ہوتا ہے كہ رسول اكرم(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) اپنے پورے احساسات و جذبات كے ساتھ لوگوں كي ہدايت كي فكر ميں مشغول رہتے تھے اور ان كي بدبختي و گمراہي پر رنجيدہ خاطر ہوجايا كرتے تھے- آپ(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) دل سے يہ چاہتے تھے كہ سب راہ راست پر آجائيں اور خوشبختي و كمال حاصل كريں- سچ ہے كہ: "اللّہ اعلم حيث يجعل رسالتہ" خدا ہي بہتر جانتا ہے كہ كيسے شخص كو منصب رسالت كے لئے انتخاب فرمائے (سورہ انعام آيت 125)
شہيد ڈاكٹر محمد جواد باہنر
مترجم: سيد احتشام عباس زيدي
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
شان نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور اس کا تحفظ ( حصّہ ہشتم )