مثنوی کے مطالعے کے مقاصد
مثنوي کے زمانہ تصنيف سے لے کر آج تک اس کے مطالعہ کے چار مختلف مطمحِ نظر اور مقصد نظر آتے ہيں :- اوّل زبان کي مشکلات کے نقطۂ نظر سے مطالعہ - دوم صوفيا نہ اسرار و معارف کے نقطۂ نظر سے ، سوم علم و ادب کے نقطۂ نظر سے ، چہارم علومِ اجتماعيہ اور فلسفہ و حکمت کے نقطۂ نظر سے - بعض صورتوں ميں پہلا اور دوسرا نقطۂ نظر ملاجلا سا منے نظر آتا ہے- پرانے زمانے کے اکثر شارح اور مفسر مثنوي کو عموماً اسي نقطۂ نظر سے ديکھتے رہے- ان ميں سے تصوف اور عرفان کے نقطۂ نظر سے خوارزمي نے مثنوي کي نئي تعبير و توجيہ کي - داعي شيرازي نے بھي کسي حد تک اسي حيثيت سے مطالعہ کيا -
عبد اللطيف عباسي نے زياد ہ تر زبان و بيان کي مشکلات کي طرف توجہ کي - ہندوستان ميں شايد علامہ ابو الفضل پہلے شخص تھے جنہوں نے مثنوي کے مطالعہ کے لئے دانش رسمي اور عرفان دونوں کي اہميت پر زور ديا - مگر ابو الفضل کا مطمحِ نظر بھي فرد کي روحاني اصلاح و تہذيب سے زيادہ کچھ نہ تھا - مغلوں کے آخري دور ميں مثنوي کا عام مطالعہ دراصل روحاني سکون و تسکين کے خيال سے ہوتا رہا - اور يہ اس ذہني و روحاني انتشار کے خلاف ايک نسخۂ شفا تھا - جس سے طبائع کو عارضي طور پر مسرت اور تفريح مل جاتي تھي -
مطالعۂ مثنوي کي تاريخ ميں اقبال سے پہلے شايد سب سے بڑا نام مُلا بحرالعلوم کا ہے - جن کي طويل و ضخيم شرح مثنوي نہ صرف مثنوي کي مبسوط ترين تفسير ہے بلکہ اس کا درجہ فارسي تصوف اور علم کلام ميں بھي بہت بلند ہے- مولانا عبدالعلي بحر العلوم اس نامور خاندان کے ايک فرد ہيں جس کو اسلامي ہندوستان کے دورِ آخر ميں احيائے علومِ عربيہ کي تحريک کا باني اور علمبردار سمجھا جاتا ہے- بحرالعلوم کے والد مولانا نظام الدين سہالوي(انتقال 1161ھ) نے در سِنظاميہ کي بنياد رکھي اور فلسفہ حکمت پر بہت سي کتابيں لکھيں- بحرالعلوم تجديد و احيا ء کے لحاظ سے موروثي طور پر غير معمولي صلاحيتوں کے مالک تھے- وہ اپنے والد کي طرح حکمت ، منطق اور علم کلام وغيرہ ميں بھي کامل دسترس رکھتے تھے- انہوں نے مثنوي کو علم کلام اور محي الدين ابنِ عربي کے متصوّفانہ نقطۂ نظر سے پڑھا اور اس کي ايسي شرح لکھي جس ميں فتوحاتِ مکيّہ کا پورا پورا رنگ منعکس ہے- اس لحاظ سے ان کي شرح معارفِ دين سے کہيں زيادہ معارفِ طريقت کي کتاب بن گئي ہے- اور يہي اس کي خصوصيت ہے- مطالعۂ مثنوي کے سلسلے ميں شبلي کي يہ اہميت ہے کہ انہوں نے مثنوي کے اس حصے پر خاص توجہ دي جس کا تعلق احيائے دين اور علومِ طبعيہ کے بعض انکشافات سے ہے- شبلي نے مثنوي کو ابن عربي کے اثرات سے نجات دلا کر غزالي ط’کي تحريکِ تجديد دين و تکميلِ اخلاق سے منسلک کر ديا - انہوں نے مجرّد فکر اور فلسفۂ اجتماع دونوں کے نقطہ نظر سے اس کا علمي تجزيہ کيا - مثنوي رومي اور علومِ جديد ميں مطابقت پيدا کرنے کي يہ پہلي کو شش تھي - جس نے آگے چل کر مثنوي کي علمي تشريح و تعبير کي بڑي حوصلہ افزائي کي -
تحرير: ڈاکٹر سيد عبداللہ
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
مُطالعۂ رومي ميں اقبال کا مقام