خدا کے ايک ہونے پر پختہ يقين
ہر مسلمان کو اللہ تعالي سے پختہ محبت ہوني چاہيۓ اور اسے عقيدہ توحيد کي اصل روح اور حقيقت سے آگاہ رہنا چاہيۓ- توحيد يہ ہے کہ اللہ تعاليٰ کي الوہيت (Divinity) ميں کسي کو شريک نہ کيا جائے- معيارِ الوہيت واجب الوجود ہونا اور مستحق عبادت ہونا ہے- واجب الوجود وہ ذات ہے جس پر کبھي نہ عدم آيا ہے نہ آ سکتا ہے- وہ صرف ايک ذات ہے اللہ تعاليٰ کي جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گي کوئي وقت ايسا نہيں کہ وہ نہيں تھا اور کوئي وقت ايسا نہيں ہوگا کہ وہ نہ ہو- اگر بندہ اللہ تعاليٰ کے علاوہ کسي اور کو واجب الوجود مانتا ہے يا مستحق عبادت مانتا ہے تو وہ مشرک ہے- ليکن اللہ تعاليٰ کے اذن واجازت سے کسي ذات کو مدد گار مان لينا يہ شرک نہيں ہے- کيونکہ معيارِ الوہيت مدد گار ہونا نہيں ہے بلکہ واجب الوجود ہونا اور مستحق عبادت ہونا ہے وہ اللہ تعاليٰ کے سوا نہ کسي ميں مجازي ہو سکتا ہے اور نہ عطائي- جبکہ قرآن مجيد ميں ہے کہ فرشتوں کو ميدانِ بدر ميں مدد گار بنايا گيا تھا- رسول اللہ (ص) کے بارے ميں يا اولياء اللہ کے بارے ميں مشکل کشائي کا عقيدہ رکھنے سے نہ اللہ تعاليٰ کي ذات ميں شرک لازم آتا ہے اور نہ ہي صفات ميں- ذات ميں اس ليے نہيں کہ مجازي مدد گارماننے سے ان مقبولانِ بارگاہ ايزدي کو واجب الوجود مانا گيا ہے اور نہ ہي مستحق عبادت- اللہ تعاليٰ کي صفات کے لحاظ سے بھي شرک لازم نہيں آئے گا اس ليے کہ اللہ تعاليٰ جو مشکل کشائي اور حاجب روائي کرتا ہے تو کسي کے اذن و توفيق سے نہيں خود ايسا کرتا ہے- مقبولانِ بارگاہ ايزدي اللہ تعاليٰ کے حکم و توفيق سے ايسا کرنے والے ہيں- شرک تب لازم آتا جب اللہ تعاليٰ کے بندوں کو بھي اللہ تعاليٰ کي طرح کسي کا محتاج نہ مانا جاتا يا پھر اللہ تعاليٰ کو بھي اللہ کے بندوں کي طرح مشکل کشائي ميں کسي کا محتاج مانا جاتا معاذ اللہ جبکہ ايسا نہيں تو پتہ چلا اس کي ذات ميں بھي کوئي شريک نہيں ہے اور صفات ميں بھي کوئي شريک نہيں ہے-
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
عقيدہ توحيد کي ضرورت اور مفہوم