حديث ساري ہي اللہ کے الہام پر مبني ہے
حديث کي مماثل چيزيں ديگر قوموں ميں ہميں نہيں ملتي ہيں
قرآن مجيد کو خود رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم نے اپني نگراني ميں مدون کرايا
تاريخِ حديث
حديث اور قرآن کے مابين ايک تيسري چيز بھي آتي ہے اس سے بھي واقفيت ہو جاني چاہيے- اگر چہ اس ميں اور حديث ميں کوئي بڑا فرق نہيں ہے، ليکن ايک حد تک فرق ضرور ہے وہ چيز ہے حديث قدسي- حديث قدسي کے معني رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کي بيان کردہ وہ حديث جس کے شروع ميں يہ الفاظ آتے ہيں "اللہ کہتا ہے کہ --- فلاں فلاں" يوں ہم کہہ سکتے ہيں- حديث ساري ہي اللہ کے الہام پر مبني ہے کيونکہ يہ (وما ينطق عن الھوي ان ھوالا وحي يوحي 4,3:53) کي آيت کے مطابق ہے- ليکن اگر حديث ميں خود رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم صراحت فرمائيں کہ "اللہ کہتا ہے کہ فلاں چيز تو اس کو ہمارے مۆلف ايک مستقل درجے ميں رکھتے ہيں اور اسے "حديث قدسي" کا نام ديتے ہيں البتہ اس کي روايت اس کا ايک دور سے دوسرے دور تک منتقل ہونا بالکل اسي طرح ہوا جس طرح عام حديثوں کا ہے- ہم ان ميں کوئي فرق نہيں پاتے ہيں- ايسي حديث کي ابتدا عموماً اس طرح ہوتي ہے کہ "اللہ" ضمير متکلم کے ذريعے سے ايک امر ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ميں ايسا کروں گا تو خدا خود کلام کرتا ہے اور اس کو رسول اللہ ہم تک پہنچاتے ہيں- اس موضوع پر قديم زمانے ہي سے متعدد مۆلفوں نے کتابيں لکھي ہيں جو ہم تک پہنچي ہيں- بعض چھپ بھي گئي ہيں اور بعض ممکن ہے ابھي تک قلمي حالت ميں موجود ہوں- اس موقع پر آپ کي دلچسپي کے ليے ايک واقعہ سناتا ہوں- پيرس ميں ايک نومسلم لڑکي آج کل اس موضوع پر اپنے ڈاکٹريٹ کا مقالہ تيار کر رہي ہے اس لڑکي کا نام عائشہ ہے يہ بہت ذہين لڑکي ہے- دو سال ہوئے اس نے عربي شروع کي اور اب اس درجہ کي اسے عربي آ گئي ہے کہ رياض الصالحين نامي سات آٹھ سو صفحوں کي ضخيم کتاب کا ترجمہ عربي سے اس نے فرنچ ميں کر ڈالا ہے اور اب ايک مقالہ لکھ رہي ہے اس موضوع پر کہ "حديث قدسي کيا ہے" اور ايسي حديثوں کے اندر کيا کيا چيزيں ملتي ہيں وغيرہ وغيرہ- اس ميں ہر چيز حديث قدسي کے موضوع کي تشريح کے ساتھ ساتھ آئے گي- حديث قدسي کے دو چار رسالے جو دستياب ہيں ان ميں سے بھي بعض کا وہ ترجمہ کر رہي ہے تاکہ مقالہ ميں شامل کر سکے-
حديث کي دو بڑي قسميں بيان کي جا سکتي ہيں ايک سرکاري مراسلے اور دوسرے صحابہ کا اپنے طور پر مراسلے يا سرکاري تحريريں- ہجرت سے پہلے ہي ہميں چند چيزوں کا پتہ چلتا ہے مثلاً آپ واقف ہيں کہ تقريباً سنہ 5 نبوت ميں ہجرت سے سات آٹھ سال پہلے مکے ميں جب مشرکين مکہ نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کيا تو کچھ لوگ رسول اللہ کے حکم اور اجازت سے حبشہ کو ہجرت کر گئے، اس سلسلے ميں ايک دستاويز ہميں ملتي ہے- ممکن ہے آپ ميں سے بعض اس سے واقف بھي ہوں کہ اس کا ذکر سيرت کي کتابوں ميں آتا ہے يہ ايک خط ہے جو رسول اللہ نے اپنے چچا زاد بھائ جعفر طيار رضي اللہ تعاليٰ عنہ کو ديا کہ يہ خط نجاشي کو جو حبشہ کا حکمران تھا پہنچا ديں- اس کے آخر ميں الفاظ يہ ہيں:
"ميں اپنے چچا زاد بھائ جعفر کو تيرے پاس بھيج رہا ہوں اس کے ساتھ کچھ اور بھي مسلمان ہيں جب يہ تيرے پاس پہنچيں تو ان کي مہمانداري کرنا-"
مصنف : ڈاکٹر مرتضيٰ مطھري
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان