رومي کے کلام ميں سعدي کي فصاحت موجود نہيں
رومي کے کلام ميں سعدي کي فصاحت ، عنصري کي پختہ کاري ، انوري اور فرخي کے پرشکوہ الفاظ موجود نہيں - ان کے يہاں مسعود سعد سلمان کي مستحکم زبان اور خاقاني جيسي استادانہ ترکيبات نہيں ملتيں - ان کے کلام ميں ايک ايسي چيز ہے کہ ان سب کے راستے کو روکتي ہے اور ان سے برتر ہے - انہوں نے جو کچھ محسوس کيا ہے اسے مجاز کي راہ اپنائے بغير بيان کيا ہے - وہ بغير کسي فلسفيانہ رنگ کے اپني روح کي شوريد گي اور ديوانگي کو صفحہ قرطاس پر رقم کرتے ہيں- اس کيفيت ميں وہ تند و تيز ہوا کے جھونکے کي مانند ہيں کہ جو کچھ اس کے راستے ميں آئے اسے لپيٹ کر لے جائے-
مولانا کے شعر کا انداز جدا ہے - انہوں نے راہ نوتراشي ہے - جس کي شاخيں ويرانوں ، کاشانوں ، ميخانوں اور بتخانوں کي جانب جاتي ہيں- ليکن پھر مڑ آتي ہيں اور سيدھي عاشقوں کي عبادتگاہ کا رخ کرتي ہيں اور يوں حق و حقيقت کي راہ سے ملاپ پاتي ہيں - مولانا کي پرواز زمين سے آسمان کي طرف ہوتي ہے - پھر جب لوٹتے ہيں تو روحاني غذا مہيا کر تے ہيں جو جسم و روح ميںداخل ہوتي ہے - جسم وروح فيض پاتے ہيں ، ذي حيات اور ذي عقل بہرہ ور ہوتے ہيں -مسرت و شادماني اور خرمي و انبساط کا سيلاب امڈ آتا ہے اور صائب تبريزي کے الفاظ ميں يہ کيفيت ہوجاتي ہے :
از گفتہ مولانا مدھوش شدم صائب
اين ساغر روحاني صہباي دگر دارد
اور علامہ اقبال کي آواز آتي ہے:
پير رومي خاک را اکسير کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمير کرد
مولانا رومي کے يہاں آتش عشق موجود تھي- آتش کو بھڑکانے کا بھي بندوبست تھا - صرف باد نسيم کے ايک جھونکے کي منتظر تھي - يہ کام حضرت شمس تبريزي نے سرانجام ديا - ان کے تاثرات و انفعالات ميں ہيجان پيدا ہو گيا - وہ اسي انقلاب دروں کي تصوير کشي کرتے چلے گئے - حضرت شمس کے بعد صلاح الدين زرکوب اور حسام الدين چلپي نے اُن کي جگہ لے لي- يوں ديوان اور مثنوي منظر عام پر آئے- ہزاروں اشعار کہنے کے باوجود ان کي آتش عشق بجھنے نہ پائي اور وہ ہر دور کے سب سے بڑے صوفي شاعر متصور ہوئے - خود فرما گئے:
گفتا کہ چندراني گفتم کہ تابخواني
گفتا کہ چند جوشي گفتم کہ تاقيامت
***
ھم خونم و ھم شيرم ھم طفلم و ھم پيرم
ھم چاکر و ھم ميرم ھم اينم و ھم آنم
ھم شمس شکرريزم ھم خطہ تبريزم
ھم ساقي و ھم مستم ھم شہرہ و پنہانم
شمس الحق تبريزم جز با تو نياميزم
مي افتم و مي خيزم من خانہ نمي دانم
***
فسانہ عاشقان خواندم شب و روز
کنون در عشق تو افسانہ گشتم
حضرات !يہ ان کا فسانہ ہي تو ہے جو ہميں نزد و دور سے يہاں لے آيا ہے اور ہم دنيا بھر ميں سر دھنتے تھکتے نہيں-
تحرير : ڈاکٹر انعام الحق کوثر
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
موسيقي کے اثرات مولانا کے کلام ميں بھي ظاہر ہو ئے ہيں