ماسکو: يورپ ميں مسلمانوں کے بڑے شہروں ميں سے ايک
روس کے صرف ايک مرکز ميں اسلام قبول کرنے والي دس ہزار خواتين نے رجسٹريشن کرائي ہے-
ماسکو ميں اس وقت بيس لاکھ سے زائد مسلمان رہتے اور کام کرتے ہيں اور اس اعتبار سے وہ يورپ ميں مسلمانوں کے بڑے شہروں ميں سے ايک بن گيا ہے-
يہي وجہ ہے کہ ماسکو ميں موجود چار مساجد نمازيوں کے ليے کافي نہيں ہيں- ہر جمعہ کو نمازيوں کي تعداد اتني ہوتي ہے کہ انہيں مساجد سے باہر برف پر نماز پڑھني پڑتي ہے-
جب نماز جمعہ ہو رہي ہوتي ہے تو کار سوار راستے کے ليے ہارن بجا رہے ہوتے ہيں اور پيدل چلنے والے گذرنے کے ليے دشواريوں کا شکار ہو رہے ہوتے ہيں-
نئے مسلمانوں کي بڑي تعداد ان مہاجرين پر مشتمل ہے جو سوويت يونين کا حصہ رہنے والي وسط ايشيائي رياستوں سے ماسکو منتقل ہوئے ہيں-
غربت اور سوويت يونين کے ختم ہونے کے بعد پيدا ہونے والے جھگڑوں کے نتيجے ميں نئي زندگي شروع کرنے کے ليے نکلنے والے ان لوگوں ميں ازبک، تاجک اور کرغيزيوں کي تعداد سب سے زيادہ ہے-
ازبکستان سے آنے والے ايک نوجوان الوگ بيک کا کہنا ہے ’ہماري تعداد بہت زيادہ ہے، ہميں اس بات پر تو شکر گذار ہونا چاہيے کہ ماسکو ميں مساجد ہيں ليکن شہر، اچانک آنے والے لاکھوں لوگوں کي ميزباني کے ليے تيار نہيں‘-
تاہم دوسرے لوگوں کا خيال ہے کہ حکام مسلمان آبادي کي ضرورتوں کو نظر انداز کر رہے ہيں-
ماسکو کي تاريخي مسجد کے طور پر جاني جانے والي مسجد کے پيش امام، حسين فخرت دينوف کا کہنا ہے کہ ’موجودہ سہولتيں بہر طور ناکافي ہيں‘-
انہوں نے مزيد کہا کہ ’اس ليے ہم حکام سے نئي مساجد تعمير کرنے کے اجازت چاہتے ہيں، ليکن وہ ہمارے مطابے کو نظر انداز کر رہے ہيں، اس ليے لوگوں کو مساجد سے باہر بارش ميں اور برف پر نماز ادا کرني ہو گي‘-
ماسکو کي تاتار نامي قديم مسجد کو ايک نئي بڑي عمارت ميں منتقل کيا جا رہا ہے ليکن اس کے باوجود تمام نمازيوں کے ليے مسجد کے اندر نماز ادا کرنا ممکن نہيں ہو گا-
نئے لوگوں کي وجہ سے ماسکو ميں جو تبديلياں آ رہي ہيں ماسکو کے شہري ان پر مختلف آرا رکھتے ہيں-
مسجد کے پاس سے گذرنے والي دو نوجوان خواتين کا کہنا تھا کہ ’ماسکو ترقي کر رہا ہے اور يہي وجہ ہے کہ لوگ يہاں آ رہے ہيں اور اتفاق ہے کہ ان ميں مسلمانوں کي تعداد زيادہ ہے- اب اگر روسي يہاں چرچ بنا رہے ہيں تو کسي کو يہ حق نہيں کہ وہ مسلمانوں کو مساجد کي تعمير سے روکے‘-
اس کے برخلاف دوسروں کي رائے ہے کہ باہر سے آنے والے ان لوگوں کي وجہ سے روسي ثقافت اور زندگي کے طريقے تبديل ہو رہے ہيں-
شہر ميں نئے لوگوں کي آمد پر کڑي پابندياں لگانے کے حامي اور خود کو روزووٹ کہنے والے ايک قوم پرست گروپ کے يوري گروسکي کا کہنا ہے کہ لوگ مذاق ميں کہتے ہيں کہ ماسکو، ماسکو آباد بنتا جا رہا ہے-
ان کا کہنا ہے کہ ’ذرا آپ ماسکو کي سڑکوں پر نکل کر ديکھيں آپ کو سلاوک کم اور مسلمان زيادہ دکھائي ديں گے- اگر باہر سے لوگوں نے آنا ہي ہے تو سلاوک ملکوں کے لوگوں کو آنا چاہيے ليکن ان مسلمانوں کو روکنا ہو گا‘-
روس ميں نقل مکاني کر کے آنے والے مسلمانوں پر باقاعدگي سے حملے ہونے لگے ہيں اگرچہ اب ان ميں کچھ کمي آئي ہے-
روس ميں انساني حقوق کے ليے کام کرنے والے گروپ سووا کا کہنا ہے کہ 2008 کے دوران نسل پرستانہ حملوں ميں 57 اموات اور196 افراد زخمي ہوئے جب کہ 2011 کے دوران سات افراد ہلاک اور 28 زخمي ہوئے-
يہي نہيں، نئے آنے والے اپنے ساتھ اپني ثقافت اور رہن سہن بھي لائے ہيں، اب ماسکو ميں ايسي دکانيں اور کيفے بڑي تعداد ميں دکھائي ديتے ہيں جن پر حلال اشيا دستياب ہوتي ہيں اور ماسکو کي حلال ٹيک اووے دکانوں پر فروخت ہونے والے سموسوں نے تو سب سے زيادہ مقبوليت حاصل کر لي ہے-
اس کے علاوہ ماسکو ميں اسلام قبول کرنے والوں کي تعداد ميں بھي ڈرامائي اضافہ ہو رہا ہے- ان ميں ايک علي چسلاف بھي ہيں جو سابق آرتھوڈک پادري اور سياستداں ہيں- وہ بارہ سال قبل مسلمان ہوئے اور اب ايک ايسا امدادي مرکز چلا رہے ہيں- جو اسلام قبول کرنے والے نئے لوگوں کي مدد کرتا ہے اور انہيں مشورے ديتا ہے-
اس مرکز ميں کام کرنے والي عائشہ لاريسہ کا کہنا ہے کہ صرف ان کے مرکز ميں اسلام قبول کرنے والي دس ہزار عورتوں نے رجسٹريشن کرائي ہے-
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم ان عورتوں کو عبادت کرنا سکھاتے ہيں اور اگر انہيں اسلام قبول نہ کرنے والے رشتہ داروں کي وجہ سے مسائل پيش آتے ہيں تو انہيں مشورے ديتے ہيں‘-
اسلام ہميشہ ہي سے روس ميں دوسرا بڑا مذہب رہا ہے ليکن يہ حقيقت اس سے پہلے اس طرح ظاہر نہيں ہو رہي تھي جيسے اب دکھائي ديتي ہے-
پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
اسلامي روح ہميشہ زندہ رہے
اسلام کي روحاني طاقت اسلام اور مغرب کي نظر ميں انساني حقوق ( حصّہ نہم )