ہندوستان ميں تو الہلال کي اشاعت سے پہلے غالباً لوگ سيد جمال الدين کے نام سے بھي آشنا نہ تھے
مشہور ہے کہ جب پيرس ميں روسي سفير نے اس سے ملنا چاہا تو اس نے ملاقات کي تاريخ ايسي مقرر کرائي- جو دو ہفتہ بعد آنے والي تھي- اس کے بعد وہ ايک کتب فروش کے يہاں گيا اور اس سے کہا- ’’مجھے فرانسيسي ميں روسي زبان سکھانے والي کتاب چاہئے- ميں خريد لوں گا- بشرطيکہ تم اس کا بھي انتظام کر دو کہ آج سے ايک ہفتہ بعد کوئي روسي زبان بولنے والي آدمي مجھ سے ملاقات کر سکے- ‘‘ کتب فروش نے کتاب بھي دي، اور ايک ايسے شخص کا انتظام بھي کر ديا- جو اسي کے يہاں ملازم تھا- جمال الدين نے ايک ہفتہ تک بطور خود کتاب ديکھي- پھر آٹھويں دن سے چودھويں دن تک روز ايک گھنٹہ روسي سے باتيں کرتا رہا- اور پندرھويں دن وہ تيار ہو گيا تھا کہ روسي سفير سے بغير کسي مترجم کي وساطت کے ملاقات کرے !
سيد کے سوانح حيات اگر سيد جمال الدين کي زندگي ميں لوگ اس کے حالات سے واقف نہ ہو سکے، تو يہ چنداں عجيب بات نہيں ہے- دنيا نے ہميشہ اپنے اکابر و احاظم سے ان کي زندگي ميں غفلت برتي ہے، اور جب تک وہ دنيا سے رخصت نہيں ہو گئے ہيں- ان کے حقوق کا اعتراف نہيں کيا ہے- خصوصاً مصلحين و مجددين امم کے لئے تو زندگي ميں تغافل اور موت کے بعد تعظيم و احترام اس دنيا کا ايک عام اور غير متغير قانون ہے- ليکن يہ صورت حال کس درجہ عجيب اور تاسف انگيز ہے کہ اس کي وفات پر پورے تيس برس گزر چکے ہيں اور وہ تمام مشرقي ممالک بيدار ہو چکے ہيں- جہاں اس نے اصلاح و انقلاب کي ابتدائي تخم ريزي کي تھي- تاہم اس کي زندگي بدستور تاريخ کي روشني سے محروم ہے اور اس سے زيادہ مشرق کچھ نہيں جانتا، جتنا يورپ کے بعض محبِ شرق اہل قلم نے بتلا ديا ہے !
افسوس اس جہل و غفلت پر ! ہم صرف اپنے قدما کي شناخت ہي کے لئے يورپ کے محتاج نہيں ہيں بلکہ اپنے عہد کے اہل فضل و کمال کے لئے بھي اس کے محتاج ہيں- جب تک وہ انگلي سے اشارہ کر کے نہ بتلا دے، ہم خود اپني قوم اور عہد کے بڑے بڑے انسانوں کو بھي نہيں پہچان سکتے !
ہندوستان ميں تو الہلال کي اشاعت سے پہلے غالباً لوگ سيد جمال الدين کے نام سے بھي آشنا نہ تھے- 1879ء ميں جب وہ حيدرآباد اور کلکتہ ميں مقيم تھا تو ہندوستاني مسلمانوں ميں سے صرف ايک شخص يعني مرحوم عبد الغفور شہباز تھا- جسے اس کے فضل و کمال کي تھوڑي سي شناخت نصيب ہوئي تھي، اور اس کے چند فارسي مقالات کا اردو ترجمہ شائع کيا تھا- ( پروفيسر عبد الغفور شہباز، مصنف حيات نظير اکبر آباد نے علامہ جمال الدين افغاني کي زندگي ميں ان کي اجازت سے ان کے فارسي مقالات کا مجموعہ’’ مقالات جماليہ‘‘ کے نام سے شائع کيا تھا- يہ مجموعہ رپن پريس کلکتہ سے 1882ء ميں شائع ہوا-
پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
فلسطيني جہاد اسلامي کے اعلي کمانڈر محمد شحادہ، کيوں شيعہ ہوئے؟ (حصّہ دوّم)