اسلام کي روحاني طاقت
اسلام کي آمد سے قبل ايسا دور تھا جب پورا عالم جہالت کي تاريکيوں ميں ڈوبا ہوا تھا - ہر طرف شرک چھايا ہوا تھا اور اس دور کا انسان ايک خدا کو بھول کر بتوں کے سامنے سجدہ بہ ريز ہو گيا تھا - عورت کا معاشرے ميں بہت ادني مقام تھا اور اس کي عزت کو جگہ جگہ پامال کيا جاتا تھا - چھوٹي چھوٹي باتوں پر ايک دوسرے کو قتل کرديا جاتا- پھر ”ہراندھيرے کے بعد ايک روشني“ کے مصداق نبي آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم مبعوث کئے گئے‘ آپ ص سارے عالم کے لئے رحمت بن کر آئے‘ آپ کے آنے سے کفر کے اندھيرے چھٹ گئے‘ آپ ص نے لوگوں کو اللہ وحدہ لاشريک لہ کي طرف دعوت دي‘ لوگوں کو کفر وشرک کے اندھيرے سے نکال کرنور ايمان کي طرف ہدايت کي‘ آپ نے حياء کو ايمان کا شعبہ قرار ديا‘ آپ ص نے زندگي گزارنے کے تمام راہنما اصول بيان فرمائے‘ جن کے نصيب ميں ہدايت تھي‘ وہ نبي ص پر ايمان لا کر ہميشہ کي کاميابي سے سرفراز ہوگئے اور پوري امت کے لئے ستاروں کي مانند بن گئ -
اسلام کي ايک بڑي خصوصيت يہ ہے کہ وہ تاريخ کے ہردور ميں ہميشہ ہي سُپر طاقت ہي ثابت ہوا ہے- کبھي تو مسلمانوں کو سياسي عروج کي بنياد پر اسلام فاتح اور غالب بن کر رہا اور سياسي غلبہ کے فقدان کي صورت ميں اس نے قلوب پر حکمراني کي- تاريخ ميں چند ايسے موڑ بھي آئے ہيں جب لوگوں کو محسوس ہو چلا کہ اسلام اب زوال پذير ہے اور اس کا چل چلاؤ شروع ہوچکا ہے؛ ليکن تھوڑي ہي مدت ميں اچانک کايا پلٹ گئي اور اسلام پھر پوري آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہوگيا- پہلي مرتبہ عالمِ اسلام پر اور خصوصاً اس وقت کي سب سے بڑي اسلامي حکومت خلافتِ عباسيہ اور بغداد پر تاتاريوں کي يورش کے موقعہ پر لوگوں کو محسوس ہوا کہ اب اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا- تاتاريوں کے طوفانِ بلا خيز سے اسلامي علوم و فنون کي دھجياں اڑ گئي تھيں اور تہذيب و تمدن کا چراغ غل ہوگيا تھا؛ ليکن ايسے وقت جب اسلام کي سياسي طاقت کا ستارہء اقبال گردش ميں تھا، اسلام کي روحاني طاقت قلوب کو مسخر کر رہي تھي اور جنھوں نے مسلمانوں کو مفتوح بنا ليا تھا اسلام نے اسي فاتح قوم کے قلوب کو فتح کرنا شروع کيا؛ تا آں کہ وہي تاتاري ايک دن اسلام کے سب سے بڑے محافظ اور پاسبان بن گئے-
شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحریریں:
اسلام اور مغرب کي نظر ميں انساني حقوق ( حصّہ ششم )