حديث غدير ولايت کا منہ بولتا ثبوت-16
يہ گواہي اور اقرار لينے کا مقصد کيا تھا؟ کيا اس گواہي کے ذريعے رسول اللہ (ص) لوگوں کو ذہني طور پر علي عليہ السلام کے مقام و منصب کے اعلان کے لئے تيار کررہے تھے اور انہيں اس حقيقت کے لئے تيار کررہے تھے کہ علي (ع) کي ولايت و امامت پر بھي اللہ کي وحدانيت اور رسول اللہ (ص) کي رسالت کي مانند ايمان لائيں اور جان ليں کہ ولايت و امامت اسلام کے تين بنيادي اصولوں ميں سے ايک ہے جن پر سب کا ايمان ہے اور سب کو ان پر اقرار کرنا چاہئے- اگر لفظ مولا سے مراد دوست يا ناصر و مددگار ہوتا تو رسول اللہ (ص) کے دو حکيمانہ جملوں کے درميان ربط و تعلق ختم ہو کر رہ جاتا اور يہ کلام اپني استواري اور استحکام کھو ديتا اور کلام رسول (ص) کے جملوں کي پيوستگي ختم ہوکر رہ جاتي- کيا ايسا ہے؟ [کيا رسول اللہ (ص) جو اللہ تعالي کے بعد حکمت و علم و مرتبت کے حوالے سے دوسرے ہيں، سے بے ربط کلام صادر ہوسکتا ہے؟!] کيا يہ بات درست ہے؟
***
پانچواں گواہ:
رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے خطاب کے آغاز پر اپني رحلت اور وصال کي خبر دي اور فرمايا: "إنّي أَوْشَكُ أَنْ اُدْعى فَاُجِيبَ" قريب ہے کہ مجھے دعوت حق ملے اور ميں بھي لبيک کہدوں"- (24)
-------
مآخذ
24- الغدير ج1 ص26، 27، 30، 32، 333، 34، 36، 47 اور 176 سے رجوع کريں؛ علامہ اميني نے يہ جملہ صحيح ترمذى، ج 2، ص 298; الفصول المهمّه ابن صباغ، ص 25; المناقب الثلاثه حافظ ابى الفتوح، ص 19; البداية و النّهاية ابن كثير، ج 5، ص 209 و ج 7 ص 348; الصواعق المحرقه، ص 25; مجمع الزّوائد هيتمى، ج 9، ص 165 وغيرہ سے نقل کيا ہے-