اشاعت اسلام کے مرکزي ايشيا پر اثرات ( اٹهارواں حصّہ )
1992ء ميں ہر جہوري ملک ميں ہزاروں مساجد بن گئيں ،ان مساجد اور مدارس کي تعمير کے مالي اخاراجات عربي ممالک کي طرف سے تامين ہوتے تھے، 1990ء کے شروع ميں سعودي عرب نے مرکزي ايشيا ميں ايک اچھوتے عمل کا اقدام کيا جس سے لوگ دوبارہ اسلام کي طرف متوجہ ہوگئے ، اس نے اس علاقہ ميں 000/00/10 (دس لاکھ) قرآن بھيجنے کا انتظام اور مقامي زبان ميں قرآن کے ترجمہ کے خرچ کا اہتمام کيا، نيز تاشقند ميں ايک اسلامي نشر واشاعت کا مرکز کھلوايا، ان علاقوں ميں قرآن کا وارد ہونا بہت زيادہ عمومي شوق اور ہيجان کا باعث ہوا، سعودي عرب کے ريڈيو اسٹيشن نے اپنے پروگراموں ميں تبديلي کرتے ہوئے مرکزي ايشيا کے مسلمانوں کے لئے ندائے اسلام کے نام سے ايک پروگرام کو ترتيب ديا، شاہ فہد نے بارديگر 1991ء اور 1992ء ميں سويوں حج کے اميد وار افراد کو وظيفہ حج کے انجام دينے کے لئے مدعو کيا-
سعودي عرب حکومت نے 1991ء ميں خليج فارس کي جنگ ميں ايک سمجھوتے پر دستخط کرتے ہوئے ان جمہوريوں کو ماسکو کي حمايت کي غرض سے ڈيڑ عرب ڈالر قرض دے کر مذکورہ جنگ ميں ايک بہت بڑا کردار ادا کيا اس کے باوجود بھي، عرب برادري مذہبي اور احساسي روابط کي حد تک ہي باقي رہي، عملي ميدان تک نہ پہنچ سکي- 1992ء ميں سعودي وزير خارجہ سعود الفيصل مرکزي ايشيا کے دورے پر آيا اس نے ديکھا کہ ان کے کام نے لوگوں کو دوبارہ اسلام کي طرف پلٹنے ميں زيادہ مدد دي ہے نہ يہ کہ اقتصادي وسعت اور تجارتي روابط کو ايجاد کيا ہے، يہاں تک کہ قزاقستان کے آلماتي ميں شہر سب سے پہلے کھلنے والے غير ملکي ايک سعودي بينک بہ نام ”البرکہ“ ميں مقامي لوگوں کي سرمايہ گذاري بہت کم تھي-
ازبکستان ميں مسلمانوں کي مذہبي بيداري
تاجيکستان کي داخلي جنگ تمام پڑوسي ملکوں کے لئے ايک خطرناک موضوع ميں تبديل ہوگئي، اس ڈر اور دہشت کا ريشہ اس ملک کي تاريخ اور جغرافيہ سے ملتا ہے-