اشاعت اسلام کے مرکزي ايشيا پر اثرات ( حصّہ چہارم )
يَا اَيُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَکُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَبِّکُمْ فَآَمِنُوْا خَيْرًا لَکُمْ وَاِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلَّہِ مَا فِيْ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِيْمًا حَکِيْمًا (سورۃ النساء 170:4)
ترجمہ: اے لوگو! يہ رسول تمہارے پاس تمہارے پروردگار کي طرف سے حق لے کر آگئے ہيں ، اب (ان پر )ايمان لے آؤ کہ تمہاري بہتري اسي ميں ہے- اگر (اب بھي) تم نے کفر کي راہ اپنائي تو (خوب سمجھ لو کہ ) تمام آسمانوں اور زمين ميں جو کچھ ہے اللہ ہي کا ہے اور اللہ علم اور حکمت دونوں کا مالک ہے- (سورۃ النساء 170)
اسلام کي اشاعت
پھر کيا تھا؟ سسکتي ہوئي انسانيت کي ڈھارس بندھ گئي، تشنہ کاموں کي سيرابي کا انتظام ہوگيا اور حق کے طالب اور سليم روحيں قرآن کي اس آواز پر لبيک کہنے لگيں- ہزار مخالفتوں اور رکاوٹ کے باوجود اسلام کي تسخيري قوت نے عمل کرنا شروع کيا اور اسلام کے نام ليواؤ ں کي تعداد روز بروز بڑھتي گئي؛ تا آں کہ رسولِ پاک صلي اللہ عليہ وسلم کے وصال تک صرف تيئس سال ميں اسلام پورے جزيرۃ العرب ميں پھيل چکا تھا - خلافتِ راشدہ کے تيس برسوں ميں اسلام جزيرۃ العرب سے نکل کر شام و مصر اور ايران و عراق سے گزرتا ہوا شمالي افريقہ اور وسطي ايشيا کے علاقوں تک پھيل گيا- خلافتِ بني اميہ کے ابتدائي چند عشروں ميں اسلام پورے شمالي افريقہ سے ہوتا ہوا يورپ کے مختلف علاقوں جيسے سسلي، قبرص اور خصوصاً اسپين تک پہنچ چکا تھا اور مشرق ميں وسط ايشيا سے ہوتا ہوا سندھ اور ہندوستان ميں بھي داخل ہوچکا تھا- ايک صدي سے کم عرصہ ميں اسلام ايک عالمگير مذہب بن گيا- ايک مستشرق کے الفاظ ميں: انسان کي پوري لمبي تاريخ ميں اس سے زيادہ تعجب خيز شايد کوئي اور واقعہ نہيں جتنا کہ غير معمولي تيز رفتاري کے ساتھ اسلام کا پھيلاؤ- کون اندازہ کرسکتا تھا کہ وہ پيغمبرِ اسلام جنھيں 622ء ميں ان کے وطن سے نکال ديا تھا اور وہ ايک اجنبي شہر ميں پناہ لينے پر مجبور ہوئے تھے، ايک ايسے مذہب کي بنياد رکھيں گے جو ايک صدي کے اندر مغرب ميں فرانس کے قلب تک پہنچ جائے گا اور مشرق ميں دريائے سندھ کو عبور کر کے چين کي آخري حدود تک پہنچ جائے گا؛ يعني آدھي مہذب دنيا پر-