آج کے دور کا مسلم نوجوان اور ذمہ دارياں ( حصّہ نہم)
اس کو پسِ پشت ڈال کر قوم کو ذہني اور جسماني تعيش کے ايسے بھيانک سمندر ميں دھکيلا گيا- جس کا نتيجہ ايک دردناک قومي زوال کي صورت ميں جلد ہي سامنے يا- پاکستان ايک ترقي يافتہ ملک بننے کي بجائے بہت تيزي سے ايک ايسے پسماندہ ملک ميں تبديل ہو گيا کہ جس کي عوام بھوک، جہالت، خوف اور غم کي چکي ميں مستقل پسنے پر مجبور ہو گئي- ملک عزيز ميں علم و دانش کي جس قدر شديد بے توقيري کي گئي- اس کي نظير تاريخ ميں کہيں نہيںملتي- دانائي، علم اور حکمت کي جڑيں کاٹي گئيں- اشرافيہ اور حکمران ٹولے ميں نام کا بھي کوئي ايسا دانشور، مفکر اور مدبّر منصہ شہود پر نمودارنہ ہو سکا، کہ جو اگر بہت زيادہ نہيں تو کم از کم انڈونيشا، ملائشيا اور ايران جيسے برادر اسلامي ممالک کے قائدين کي طرح ملک عزيز کي ڈولتي نيّا کو کنارے لگا نے کے ليے کسي جدوجہد کا غاز کرتا- موجودہ حکمران ٹولے اور حزب اختلاف کے سياستدانوں ميں کسي ايسے فرد واحد کے ديکھنے کے ليے نگاہيں ترستي ہيںکہ جس کي بات پر عوام کچھ بھروسہ کر سکيں، سياستدانوں کي زبان سے کلمہ خير سننے کے ليے عوام کے کان ترستے رہ گئے ہيں- عوام اس انتظار ميں ہے کہ اے کاش ان کے ليڈروں ميں سے کسي کي زبان سے کبھي کوئي بصيرت افروز اور فکر انگيز بات ايسي بھي نکلے، کہ جس ميں قوم کے ليے اميد کي کوئي کرن ہو، اب تووہ وقت گيا ہے کہ والدين ٹي وي کے سامنے سے اپنے بچوں کو اس وقت دو ر ہٹا ديتے ہيں، جب ٹاک شوز اور مذاکروں ميں سياسي ليڈر گلا پھاڑ تے نظر تے ہيں- وہ ليڈر جو منہ سے شعلے نکالتے، چيختے چلاتے دھاڑتے ‘ ايک دوسرے پر طنز و تشنيع کرتے اور مغلظاّت بکتے ٹي وي کے سکرين پر نظرتے ہيں- قوم کو سخت ذہني اذيت ميں مبتلا کرنے کا باعث ہيں- بلکہ ايک خطر ناک وائرس کي شکل ميں عوام الناس کو طرح طرح کي خطرناک ذہني بيماريوں ميں مبتلا کر رہے ہيں-
شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان