آج کے دور کا مسلم نوجوان اور ذمہ دارياں ( حصّہ ہشتم)
وہ جگہ جگہ ميدانوں اورپنڈالوں ميں کھيل تماشوں کے ليے تھيٹر بنائے گا- عراق اور فارس سے شاہانِ عجم کے افسانے اورر ستم و اسفند يار کي داستانوں اور کہانيوں کي کتابيں، ناول اور افسانے لا کر مکہ ميں جگہ جگہ ايسي لائبريرياں اور سنٹر کھولے گا، کہ جہاں لوگوں کے ليے با لکل مفت ان داستانوں اور کہانيوں کو سنانے کا انتظام ہو گا- اس نے دين اسلام کے خلاف اس مکروہ دھندے کو مزيد اس طرح فروغ ديا، کہ سردارانِ قريش سے خوش لحن اور خوبرو لونڈياں اور نوخيز غلام لڑکے حاصل کئے- اور شہر کے مختلف حصوں ميں پنڈال اور سٹيج سجا کر اُن نيم برہنہ آراستہ لونڈيوں، ہيجڑوں اور مخنثوں کو ناچنے گانے پر لگا ديا- يہ صلائے عام بھي تھا، مفت کي دعوت اورمحافل رنگ و بو کي ترغيب بھي تھي- چنانچہ مقامي لوگ اور حج کے ليے آنے والے زائرين ان سنٹروں، تھيٹروں اور رقص و سرود کي محفلوں کي طرف تيزي سے راغب ہونے لگے، نتيجتاً مکہ ميں تيرہ سال اسلام کے مشن کے فروغ اور دعوت کي رفتار سست پڑ گئي- يہاں تک کہ اللہ تعالےٰ کے حکم سے دعوت حق کے فروغ کے ليے آقائے محتشم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو مکہ سے مدينہ منورہ ہجرت کرني پڑي-
ملک عزيز پاکستان کي تاريخ پر گہري نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے- کہ 1960 ء کے بعد کس تيزي اور بلا خيز سرعت کے ساتھ لہو الحديث نے سينما، فلم، تھيٹر، ڈرامہ، فحاشي، عياشي اور عصمت فروشي کے اڈوں، ہيجڑوں، خواجہ سراğ، مخنثوں اور بھانڈوں کے مکروہ کاروبار، پاپ ميوزک، ڈانس کلبوں، ناچ گھروں اور رقص و سرود کے بزنس کو فروغ ديا گيا اوراس مکروہ کاروبار کو ملک بھر ميں کتنے زور و شور سے پھيلايا گيا، بڑے بڑے سرمايہ داروں اور جاگير داروں نے بينکوں سے اربوں کھربوں روپے قرضے لے لے کر اس گھناؤنے کاروبار ميں سرمايہ کاري کي- حکومت نے کھل کر قرضے دئيے اور اس کاروبار کي سر پرستي کي- نوجوان نسل کے ليے علمي درسگاہوں، سکولوں، کالجوں اور اعليٰ تعليم کے ليے يونيورسٹيوں کي جس قدر شديد ضرورت تھي-
شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان