قرآن کي حقانيت اور معجزات واضح ہيں (حصّہ چهارم)
بے شک قرآن سائنس کي کتاب نہيں ہے ،مگر کئي سائنسي حقائق جو اس کي آيا ت ميں بعض مقامات پر انتہائي جامع اور کہيں اشارةً بيان کيے گئے ہيں - صر ف بيسويں صدي کي ٹيکنالوجي اور سائنسي علوم کے فروغ کي مدد ہي سے ان کا مفہوم (کسي حد تک) واضح ہو سکا ہے- قرا ن حکيم کے نزول کے وقت ان کے اصل معاني متعين کرنا ناممکن تھا 'يہ مزيد ايک ثبوت ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے- قرآن حکيم کو بطور ايک سائنسي معجزہ ' سمجھنے کے ليے ہميں نزول ِ قرآن کے وقت کي سائنسي حالت پر نگاہ ڈالني ہو گي-
ساتويں صدي عيسوي ميں جب قرآن کا نزول ہوا، عرب معاشرے ميں سائنسي معلومات کے حوالے سے بہت سارے توہماتي اور بے بنياد خيالات رائج تھے- ٹيکنالوجي اتني ترقي يافتہ نہيں تھي کہ يہ لوگ کائنات اور قدرت کے اسرار کو پرکھ سکيں لہٰذا عرب اپنے آباۆ اجداد سے وراثت ميں ملے قصے کہانيوں پر يقين رکھتے تھے- مثال کے طور پر ان کا خيال تھا کہ زمين ہموار ہے اور اس کے دونوں کناروں پر اونچے پہاڑ واقع ہيں- يہ خيال کيا جاتا تھا کہ يہ پہاڑ ايسے ستون ہيں جنھوں نے آسمان کے قبے يا گنبد کو تھاما ہو ا ہے- قرآن کے نزول کے ساتھ ہي عرب معاشرے کے ان تمام توہماتي خيالات کا قلع قمع ہو گيا-
سورة الر عد کي آيت 2 ميں کہا گيا:
( اَللّٰہُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَِيْرَعَمَدٍ تَرَوْنَھَا…)
''اللہ وہي تو ہے جس نے ستونوں کے بغير آسمان جيسا کہ تم ديکھتے ہو (اتنے) اُونچے بنائے....''
اس آيت نے اس خيال کي نفي کر دي کہ آسمان پہاڑوں کي وجہ سے بلند ي پر قائم ہيں- قرآن اس وقت نازل ہوا جب لوگ فلکيات (Astronomy) طبيعيات (Physics) يا حياتيات (Biology) کے متعلق بہت کم جانتے تھے- يہ وہ مضامين ہيں جن سے کائنات کي تخليق، انسان کي تخليق، فضا کي ساخت، زمين پر زندگي کو ممکن بنانے والے نازک تناسب جيسے موضوعات کے بارے ميں بنيادي معلومات ملتي ہيں-
انسان کے ليے کائنات اور زندگي کي تخليق کے بارے ميں صحيح معلومات کا واحد ذريعہ ''مذہب'' ہے تاہم جب ہم مذہب کا لفظ استعمال کرتے ہيں - اس وقت ہمارا اشارہ قرآن مجيد کي طرف ہوتا ہے جو صحيح ترين ماخذِ علم ِکائنات و انسان ہے-ديگر مذاہب کي آسماني کتب اب وہ حيثيت نہيں رکھتيں جو انہيں اپنے زمانہء نزول ميں حاصل تھيں- کيونکہ ان ميں تحريف کردي گئي ہے- اور اس بات کي بھي خبر اللہ تعاليٰ نے اپنے ''فرقان حميد '' ميں دے دي ہے جس کي تصديق آج سائنس نے بھي کردي ہے کيونکہ بائبل جو توريت اور انجيل کا مجموعہ ہے' ميں بيان کي گئي کئي باتيں سائنس کي رُو سے غلط ثابت ہوچکي ہيں- اس ليے يہ بات بھي قرآن مجيد کي حقانيت پر دلالت کرتي ہے-
انجيل و توريت کے برعکس قرآن مجيد يقيني طور پر کلام اللہ ہے اور ہر قسم کے تضاد سے بالکل منزہ و مبّرا ہے- اللہ نے يہ کتاب خالصتا ًاپنے بندوں کي ہدايت کے ليے اتاري ہے اور رہتي دنيا تک اس کي حفاظت کي ذمہ دار بھي خود اسي کي ذات ہے- چنانچہ
سورةالحجرميں ارشاد ہوتا ہے
(اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنِّا لَہ لَحٰفِظُوْن)
''يہ ذکر(يعني قرآن مجيد) ہم نے اتارا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہيں''-
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
قرآني معارف كا ڈھانچہ اور نظام