قرآن نے سائنسي علوم ميں ہماري رہنمائي کي (حصّہ پنجم)
(ھَلْ اَتٰي عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنُ مِّنَ الدِّھْرِ لَمْ يَکُنْ شَيْئًا مَذْکُورًا - ِانِّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ٍ نَّبْتَلِيْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِيْعًا بَصِيْرًا)
''کيا انسان پر لامتناہي زمانے کا ايک وقت ايسا بھي گزرا ہے جب وہ کوئي قابل ِ ذکر چيز نہ تھا؟ ہم نے انسان کو ايک مخلوط نطفہ سے پيدا کيا تاکہ اس کا امتحان ليں اوراس غرض کے ليے ہم نے اسے سننے اورديکھنے والابنايا '' (الدھر، 1-2:76 )
نطفے او ر بيضے کا ملاپ
جب وہ سپرم، جس نے انڈے کو بارور کرنا ہوتا ہے ، بيضے کے قريب پہنچتا ہے تو انڈہ ايک بار پھر ايک خاص رطوبت خارج کرنے کا فيصلہ کر ليتا ہے جسے سپرم کے ليے بطور خاص تيا ر کيا جاتاہے- يہ سپرم کے سر کي حفاظتي ڈھال کو حل کر ديتي ہے- اس کے نتيجے ميں سپرم کے سر کے کنارے پر موجود خامروں کي محلل تھيليوں کے منہ کھول ديے جاتے ہيں جو بيضے کے ليے بطور خاص بنائي گئي ہيں- جب سپرم بيضے تک پہنچتاہے تو يہ خامرے بيضے کي جھلي ميں سوراخ کر ديتے ہيں تاکہ سپرم اندر داخل ہو سکے- بيضے کے گرد موجود مني کے جرثومے اندر داخل ہونے کے ليے مقابلہ شروع کرديتے ہيں مگر عموماً صرف ايک سپرم بيضے کو بارور کرتا ہے-
جب ايک بيضہ ايک جرثومے کو اندر داخل ہونے کي اجازت دے ديتا ہے تواس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ کوئي دوسرا جرثومہ بھي اندر داخل ہوجائے مگر ايسا عموماً ہوتانہيں ہے - اس کا سبب وہ برقياتي ميدان ہے جو بيضے کے گرد بن جاتاہے- جرثومہ (+) مثبت چارج کا حامل ہوتاہے- جبکہ انڈے کے اردگرد کا علاقہ (-) منفي طور پر چارج ہو تا ہے چنانچہ جونہي پہلا جرثومہ بيضے کے اندر داخل ہو تاہے تو بيضے کا (-) منفي چارج'مثبت چارج (+) ميں تبديل ہو جاتا ہے- اس ليے وہ بيضہ جس کا وہي برقياتي چارج ہے جو بيروني مني کے جرثومے کا ہے ، تو يہ ايک دوسرے کو پرے دھکيلنا شروع کر ديتے ہيں اور نتيجتاً کوئي دوسرا جرثومہ بيضے کے اندر داخل نہيں ہو پاتا-
آخري بات يہ ہے کہ مني ميں مرد کے ڈي اين اے اور عورت کے ڈي اين اے بيضے ميں يکجا ہو جاتے ہيں- اب يہ پہلا بيج ہے، ايک نئے انسان کا پہلا خليہ جو رحم مادر ميں ہے جسے جفتہ (Zygote) کہتے ہيں-
رحم مادر ميں چمٹا ہوا جمے ہوے خون کا لوتھڑا
جب مرد کا سپرم عورت کے بيضے کے ساتھ ملتاہے تو ''جفتہ'' پيدا ہوتا ہے جس سے متوقع بچہ پيدا ہوتا ہے- يہ واحد خليہ جو حياتيات ميں ''جفتہ '' کہلاتا ہے ، فوراً تقسيم ہو کر نشو و نما پانے لگتا ہے اور بالآخر ''گوشت '' بن جاتا ہے- يہ جفتہ اپني نشو و نما کي مدت خلا ميں نہيں گزارتا- يہ رحم مادر سے ان جڑوں کي مانند چمٹ جاتا ہے جو اپني بيلوں کے ذريعے زمين سے پيوست رہتي ہيں- اس بندھن کے ذريعے جفتہ ماں کے جسم سے وہ مادے حاصل کر سکتا ہے جو اس کي نشو و نما کے ليے لازمي ہوتے ہيں- جنين کے اس طرح چمٹ جانے کا ذکر اللہ تعاليٰ نے قرآن مجيد ميں کئي مقامات پر کيا ہے - مثلاً
( اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَ - خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ )
'' اپنے پروردگار کے نام سے پڑھيے جس نے (ہر چيز کو)پيدا کيا (اور) انسان کو (جمے ہوئے) خون کے لوتھڑے سے پيدا کيا ''(العلق -1-2 )
عربي زبان ميں لفظ ''علقہ يعني خون کے لوتھڑے ''کے معني يہ ہيں کہ کوئي ايسي چيز جو کسي جگہ سے چمٹ جائے-اصطلاحاً اس لفظ کو وہاں استعمال کيا جاتا ہے جہاں چوسنے کے ليے جسم کے ساتھ جونکيں چمٹ جائيں- رحم مادر کي ديوار کے ساتھ جفتے کے چمٹنے اور اس سے اس کے پرورش پانے کے ليے اس سے بہتر کوئي اور لفظ استعمال نہيں ہو سکتا تھا-رحم مادر سے پوري طرح چمٹ جانے کے بعد جفتہ کي نشوونما شروع ہو جاتي ہے-اس اثنا ميں رحم مادر ايک ايسے سيا ل مادے سے بھر جاتا ہے جسے ''غلافِ جنين سيا ل مادہ''کہتے ہيں جو جفتے کو گھيرے ہوئے ہوتاہے-اس غلاف جنين سيا ل مادے کا سب سے اہم کام يہ ہوتاہے کہ يہ اپنے اندر موجود بچے کو باہر کي ضربوں اورچوٹوں سے محفوظ رکھتا ہے-اس بات کا ذکر اللہ تعالي ٰ نے درج ذيل آيت کريمہ ميں کيا ہے -
(يَخْلُقُکُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ خَلْقًا مِّنْ م بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ط ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْک ط لَآ اِلٰہَ اِلِّا ھُوَ ج فَاَنّٰي تُصْرَفُوْنَ)
'' وہ تمہيں تمہاري ماğ کے پيٹوں ميں ،تين تاريک پردوں ميں ،ايک کے بعد دوسري شکل ديتے ہوئے پيدا کرتا ہے- يہ ہے اللہ (ان صفات کا ) تمہارا پروردگار، بادشاہي اسي کي ہے، اس کے سوا کوئي الٰہ نہيں ہے- پھر تم کہا ں سے پھير ديے جاتے ہو ؟'' (39- 6)
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان