قرآن نے سائنسي علوم ميں ہماري رہنمائي کي (حصّہ دوّم)
انساني ذہن کے عروج فکر نے رسل و رسائل کے ذرائع اس قدر آسان کر ديئے کہ مہينوں کا سفر منٹوں ميں طے ہونے لگا- آج کے مسافر کو نہ راستے کي صعوبتوں کا کوئي خوف ہے اور نہ ذاد راہ کا کوئي انديشہ ، ہوائي جہاز نے کائنات کے وسعتوں کو سميٹ کر رکھ ديا ہے - خلائي شٹل کے ذريعے انسان نے چاند اور مريخ پر کمند لگائي - انہي راکٹوں اور خلا کے بارے ميں سب سے پہلے تصور قرآن نے ديا- يمشعر الجن والانس--- گويا جنات اور انسان نے گروہ کو خدا نے دعوت دي کہ اگر دنيا سے نکلنا ہے تو تير کي طرح کوئي چيز بنالو اسي کے ذريعے يہي آپ اس زمين سے نکل سکتے ہيں اور آج کے راکٹ اس کي مصداق ہيں- اس کے علاوہ قرآن نے مزيد يہ تصور بھي ديا کہ خلا سے نکلنے کيلئے ضروري ہے کہ آپ کے مرکب کي رفتار بہت زيادہ ہو ورنہ کشش ثقل کي وجہ سے اس کو آگ لگ سکتي ہے اور آپ کبھي بھي اس زمين سے نہ نکل پائے گے-
قرآن ايک مکمل کتاب ہے زندگي کے ہر موڑ اور ہر منزل کيلئے اس ميں ايسے واضح احکام موجود ہيں کہ ان ميں نہ کسي ترميم کي ضرورت ہے نہ اضافے کي کيونکہ وہ مکمل اور اکمل ہيں- انسان کي خلقت اور ازل سے ليکر موت اور ابد تک کے زندگي کے بارے ميں قرآن نے واضح تصور پيش کيا ہے جس پر حل کر سائنسدانوں نے اس وقت کے تصورات کو اور خيالي دنيا کو آج کے دور ميں کي حقيقتوں ميں بدل ديا ہے- 0041 سال پہلے ديئے گئے قرآني تصورات (انسان ذہن کے لحاظ سے) اور خيالي دنيا کي باتيں جس کو آج ہم حقيقت ميں ديکھ سکتے ہيں- قانون بقائے مادہ کے بارے ميں خدا تعاليٰ نے فرمايا- اور اس نے ہر موجود چيز کو پيدا کيا پھر سب کا الگ الگ اندازہ رکھا-
جانوروں کو مختلف گروہوں ميں تقسيم کرنے کا پہلا تصور خدا تعاليٰ نے پيش کيا- واï·² خلق کل دابة من--- اور خدا تعاليٰ نے ہر ايک چلنے والے جاندار کو پاني سے پيدا کيا ہے- پھر ان ميں بعض تو وہ جانور ہيں جو کہ اپنے پيٹ کے بل چلتے ہيں- بعض ان ميں وہ ہيں، جو دو پاوں سے چلتے ہيں اور بعض ان ميں وہ ہيں جو کہ چار پاو پر چلتے ہيںخدا جو چاہتا ہے بناتا ہے-
انساني ابتداءکے بارے ميں اï·² نے فرمايا - ولقد خلقنا الانسان من ---( پارہ14سورة مومنون آيت 41) ہم نے انسان کو متي کے خلاف (يعني غذا) سے بنايا- پھر ہم نے اس کو نطفہ سے بنايا جو کہ ايک موت معينہ تک ايک محفوظ مقام (رحم) ميں رہا- پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنا ديا- پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کي بوٹي بنايا پھر ہم نے اس بوٹي کے بعض اجزاءکو ہڈياں بنا ديا- پھر ہم نے ان ہڈيوں پر گوشت چڑھا ديا- پھر ہم نے اس ميں روح ڈال کر اس کو ايک ہي طرح مخلوق بنا ديا- يہ بات جديد ترين طبي تحقيقات کے مطالعہ سے بالکل واضح ہو جاتي ہے- کہ سکلر و ٹوم (ہڈيوں کا سسٹم بننا ) مائبو ٹوم سے (پٹھوں کا نظام) سے پہلے معرض وجود ميں آتا ہے- جس کا تصور ابتدائي تصوير قرآن نے ديا-
معجزات سليماني کو اکثر طور ايک عقل سے ماورا جس تصور کيا جاتا تھا مگر آج اس تصور کو حقيقت ميں ہارپ ٹيکنولوجي نے سچ کيا کہ ہارپ ٹيکنولوجي سے کسي بھي علاقے کي آب و ہوا کو بدلا جا سکتا ہے- مثلا کسي جگہ پر پاني سے مصنوعي سيلاب يا علاقے کو گرم کرکے آگ لگائي جا سکتي ہے- ماہرين کا خيال ہے کہ حاليہ سيلاب اور ماسکو ميں جنگلات کے چلنے کا عمل دراصل ہارپ ٹيکنولوجي کا نمونہ ہے- اور آج کل تمام يورپين ممالک اور ترقي يافتہ ممالک اس ٹيکنولوجي کو جنگي ہتھيار کے طور پر استعمال کرنے کي کوشش کر رہے ہيں-ہارپ دراصل ہائي ايمپليٹيوڈريکٹيفائر پاور کا مخفف ہے- سطحي تناو کا قرآني تصور جو آج ايک حقيقت ہے-
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان