ہماري زندگي پر قرآن کے اثرات ( حصّہ سوّم )
کبھي کبھي کچھ لوگ لاعلمي يا کج فکري کي بنا پر ممکن ہے يہ گمراہ کن نظريہ پيش کريں کہ باوجوديکہ قرآن ہمارے پاس ہے اور ہم اس کي پيروي کے دعويدار ہيں ليکن کيوں ہماري مشکلات حل نہيں ہوئيں اور لوگ اسي طرح اقتصادي مشکلات سے دو چار ہيں، جيسے مہنگائي اور کرنسي کے ہلکا ہونے سے ، نيز فردي، اجتماعي، اخلاقي اور ثقافتي مشکلات سے رنج اٹھارہے ہيں؟ اس سوال کے جواب کے لئے يہاں پر ہم چند توضيحات بيان کر رہے ہيں-
قرآن، کلي طور پر راہنمائي کرتا ہے
يہ بات معقول نہيں معلوم ہوتي کہ کوئي شخص يہ اميد رکھے کہ قرآن مسائل کو حل کرنے والي کتاب کي طرح تمام فردي و اجتماعي درد اور مشکلات کوايک ايک کر کے بيان کرے اورپھر ترتيب کے ساتھ ان کے حل کے طريقہ کي وضاحت کرے- قرآن کا سرو کار انسان کي ابدي سرنوشت سے ہے اور قرآن کا مقصد دنيا و آخرت ميں انسان کي فلاح و نجات ہے- اسي لحاظ سے قرآن کريم ہميںاصلي اور کلي راستوں کي نشاندہي کرتا ہے کہ ان پر چل کر ہم کامياب زندگي گزار سکتے ہيں- يہ کلي خطوط اور راستے ايسے چراغ ہيں جو چلنے اور آگے بڑھنے کي سمت کي نشاندہي کرتے ہيں- ليکن ہميں اس بات کي طرف بھي توجہ رکھني چاہئے کہ دنيا و آخرت ميں سعادت و کاميابي حاصل کرنے کے لئے، مشکلات کو برطرف کرنے کے لئے، ترقي يافتہ اور اسي کے ساتھ ساتھ ديني او ر اسلامي معاشرہ کے تحقق کے لئے خداوند متعال نے دو وسيلے انسان کے اختيار ميں قرار ديئے ہيں: (1) دين (2) عقل-
قرآن انساني تکامل و ترقي کے اصلي خطوط اور شاہراہوں کو روشن کرتا ہے اور اسلامي سماج کا فريضہ ہے کہ تفکر و تدبر کے ذريعہ اور انساني علمي تجربوں سے استفادہ کر کے قرآن کے بلند مقاصد کے تحقق کا مقدمہ فراہم کرے، نہ صرف قرآن دوسروں (حتي غير مسلمين) کے علمي تجربوں سے استفادہ کو منع نہيں کرتا، بلکہ علم کوالٰہي امانت سمجھتا ہے اور مسلمانوں کو اس کے سيکھنے کي تشويق کرتا ہے-
shianet.in
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان