• صارفین کی تعداد :
  • 1431
  • 2/18/2012
  • تاريخ :

راستہ کي نشاندہي

بسم الله الرحمن الرحیم

وہ اصحاب جو شيعيان علي تھے ان کا نظريہ يہ تھا کہ خلافت بني ہاشم اور ان کے سردار سے خارج نہيں ہے اور اس پر رسول کي تاکيد بھي ہے اور مستقل لوگوں کو اس بات پر اکسايا ہے کہ علي اور اہل بيت رسول سے متمسک رہيں، ليکن سقيفائي حادثات نے حالات کو يکسر بدل ديااور علي اور ان کے حاميوں کے لئے يہ بہت بڑا الميہ تھا، جبکہ کوئي ايک بھي ان کے ہم پلہ نہ تھا، علامات و نشانيوں کے باوجود اجتہادي مسلک کے پيرو اس مسئلہ (خلافت) ميں ارادہنبوت کے حامي نہيں تھے ان کے سرداروں ميں سے ايک نے ا بن عباس سے صراحتاً کہا: قريش اس بات سے کترا رہے ہيں کہ نبوت و خلافت خاندان بني ہاشم ميں جمع ہو جائے-

اور سارے حادثات اسي ناپسنديدگي کے باعث وجود ميں آئے جس کے آثار سقيفہ بني ساعدہ کي صورت ميں نمودار ہوئے-

اس مسلک کے ارادے کے اثرات حضرت علي کے پيروğ پر پوشيدہ نہيں تھے بلکہ ان افراد کے بيچ ايسے باشعور افراد تھے جواس بات کو بخوبي درک کر رہے تھے کہ قريش کي ساري کوشش اس بات کي ہے کہ اس (خلافت) کو سردار قريش اور ان کے فرزندوں سے چھپاليا جائے جيسا کہ براء بن عازب نے بيان کيا کہ: ميں ہميشہ بني ہاشم کا دوست تھا جب رسول کي وفات ہوئي تو مجھ کو اس بات کا ڈر پيدا ہوا کہ قريش کہيں بني ہاشم سے خلافت کو ہتھيا نہ ليں، اس وقت ميري کيفيت ايک حواس باختہ شخص کي سي تھي، اور رسول کي وفات کے سبب ميں بہت غمزدہ تھا ميں بني ہاشم کے پاس آمد و رفت کر رہا تھا تو وہ حجرہ رسالت ميں جمع تھے اور ميں قريش کے بزرگوں کا جائزہ لينے جارہا تھا، اور عمر و ابوبکر کي وفات کے وقت بھي ميں اسي کيفيت ميں تھا، اتنے ميں کسي کہنے والے نے يہ آواز لگائي! لوگ سقيفہ بني ساعدہ ميں جمع ہيں، دوسرے نے ہانک لگائي کہ ابوبکر کي بيعت کرلي گئي-

تھوڑي ہي دير ميں کيا ديکھا کہ ابوبکر دکھائي ديئے اور عمر بن الخطاب ابوعبيدہ جراح اور سقيفائي گروہ ان کے ساتھ تھا وہ سب ايک کمر بند کا تنگ گھيرا بنائے تھے اور جو کوئي بھي ادہر سے گذرتا تھا اس کوزبردستي پکڑ کر لاتے تھے اور ابوبکر کے سامنے پيش کرتے تھے اور اس کے ہاتھ کو بڑھا کر ابوبکر کي بيعت لے ليتے تھے وہ چاہے راضي ہو يا نہ ہو-

ميں مبہوت رہ گيا دماغ نے کام کرنا چھوڑ ديا، اوربے تکان بھاگتا ہوا محلہ بني ہاشم آيا تو دروازہ بند پايا ميں نے دروازے کو بہت زور سے کھٹکھتايا اور چيخا کہ لوگوں نے ابوبکر ابن ابي قحافہ کي بيعت کرلي ہے تو ابن عباس نے اندر سے آواز دي روز قيامت تک تمہارے ہاتھ بندھے رہيں، ميں نے تم لوگوں کوايک بات کا حکم ديا تھا مگر ميرے حکم کي نافرماني کي! ميں اس وقت عجيب کيفيت ميں مبتلا ہوگيا اور رات ميں مقداد، سلمان، ابوذر، عبادہ بن صامت، ابا الہيثم بن تيہان، حذيفہ بن اليمان کو ديکھا کہ وہ لوگ اس امر (خلافت) کو مہاجرين کي شوريٰ کے درميان پيش کر کے اس کا حل تلاش کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں-

سقيفہ کے حادثہ اور ابوبکر کي اچانک بيعت سے علي کے طرفداروں کا موقف بيش از پيش واضح ہونے لگا-

يہ تو بہت چھوٹي سي بات تھي جس کو براء نے بيان کيا، اس کے بعد دوسرے بہت سارے مراحل ايک ناآگاہ اور اچانک بيعت کے سبب وجود ميں آئے اسي حوالے سے سلمان نے کہا کہ: تم لوگوں نے ايک بوڑھے کا انتخاب کرليااور اپنے نبي کے اہل بيت کو چھوڑ ديا اگر تم اہلبيت رسول کو اپنا رہنما بناتے تو تم لوگوں ميں کسي دو کے درميان بھي کسي قسم کا اختلاف پيدا نہ ہوتا اور ان کي ہمراہي ميں خوشحالي کي زندگي بسر کرتے-

جب لوگوں کي اکثريت نے ابوبکر کي بيعت کي اور ابوبکر و عمر دونوں نے اس مسئلہ پر بڑا زور ديا اور شدت بھي برتي، تو اس وقت ام مسطح بن اثاثہ باہر نکليں اور قبر رسول پر کھڑے ہوکر يہ اشعار پڑھے:

آپ کے بعد ايسے حادثات پےش آئے کہ اگر اپ زندہ ہوتے تو وہ وجود ميں نہ آتے، ہم نے آپ کو اس طرح کھوديا جس طرح زمين ميں بڑے بڑے قطروں والي بارش سما جاتي ہے، آپ کي قوم ميں تفرقہ پڑگياہے لہٰذا ان کي طرف نظر عنايت کيجئے-

گذشتہ بيان ميں حادثات سقيفہ ميں براء ابن عازب کا بيان گذر چکا ہے کہ انھوں نے اصحاب سے ملاقات کي اور بات يہاں ان کے قول پر ختم ہوئي تھي کہ: ميں دل شکستہ ہوا، جب رات ہوئي تو ميں نکل پڑا جب مسجد ميں داخل ہوا تو مجھ کو اس وقت مسجد سے رسول کے تلاوت قرآن کي آواز کا گمان ہوا، ميں اپني جگہ ٹھٹک گيا، باہر بني بيانہ کے کشادہ مکان ميں آيا تو وہاں ميں نے کچھ لوگوں کو سرگوشي کرتے پايا، جب ميں ان کے پاس گيا تو وہ سب خاموش ہوگئے ميں پلٹ پڑا-

ان لوگوں نے مجھے پہچان ليا ميں نے کسي کو نہيں پہچانا، انھوں نے مجھے آواز دي، ميں ان کے پاس گيا، تو کيا ديکھا کہ مقداد بن الاسود، عبادہ بن صامت، وہاں موجود ہيں اور حذيفہ ان سب سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہيں کہ وہ اس امر (خلافت) کو حاضرين کي شوريٰ (کميٹي) کے سامنے پيش کريں گے-

اس کے بعد کہا: ابيّ بن کعب کے پاس چلتے ہيں وہ امت کے ارادوں سے قطعي واقف ہے، براء کہتے ہيں کہ ہم سب ابيّ بن کعب کے پاس گئے اور دق الباب کيا وہ دروازے کے پيچھے آيا اور پوچھا کون؟ 

مقداد نے کہا: ہم -

اس نے کہا: کيا بات ہے؟

مقداد نے کہا: دروازہ کھولو کچھ اہم بات پر گفتگو کرني ہے جس کے لئے محفوظ جگہ ضروري ہے-

اس نے کہا: ہم دروازہ نہيں کھوليں گے ميں سمجھ گيا تم لوگ کس لئے آئے ہو؟ تم لوگ اس معاملہ( بيعت) پر نظر ثاني کرنا چاہتے ہو؟ 

ہم سب نے ايک زبان ہوکر کہا: ہاں-

اس نے پوچھا: کہ کيا حذيفہ تم لوگوں کے ساتھ ہيں؟

ہم سب نے کہا: ہاں-

اس نے کہا حذيفہ کي بات آخري ہوگي، خدا کي قسم ميں دروازہ کھول رہا ہوں تاکہ حالات معمول پر رہيں اس کے بعد جو حالات پيش آئيں گے وہ ان سے بدتر ہوں گے اور ہم خدا سے اس کا گلہ کرتے ہيں-

ابيّ ابن کعب اس راز کو اپنے سينہ ميں لئے پھرتا رہا برسوں بعد اس کو فاش کرنا چاہا، اے کاش! اس کو موت ايک دن کي مہلت ديديتي-

علي بن صخرہ سے روايت ہے کہ : ميں نے ابي ابن کعب سے کہا کہ اصحاب رسول آپ کا کيا حال ہے؟ ہم دور سے آئے ہيں آپ سے خير کي اميد رکھتے ہيںکہ آپ ہمارے ساتھ نرمي برتيں گے-

انھوں نے کہا کہ خدا کي قسم اگر اس جمعہ تک زندہ رہا تو تم لوگوں کو ايک راز بتاğ گا جس کے برملا کہنے پر تم لوگ چاہے زندہ رکھو يا مجھے قتل کردو-

روز جمعہ ميں گھر سے نکلا تو کيا ديکھا کہ مدينہ کي گليوںميں لوگوں کا سيلاب امڈ آيا ہے ميں نے پوچھا کہ، کيا ہوا؟تو لوگوں نے بتايا کہ سيد المسلمين ابيّ ابن کعب کا انتقال ہوگيا-

ابن سعد راوي ہيں کہ خدا قسم ميں اخفاء راز ميں اس دن جيسا دن نہيں ديکھا جيسا اس شخص نے راز کو چھپايا تھا-

حاکم کي روايت ہے کہ ابيّ بن کعب نے کہا کہ اگر ميں اس جمعہ تک زندہ رہا تو وہ بات بتاğ گا جو رسول اکرم سے سنا ہے اور اس کو بتانے ميں کسي ملامت کرنے والے کي ملامت کا خوف نہيں کروں گا-

مشہور مورخ يعقوبي کہتے ہيں کہ مہاجرين و انصار ميں بہت سارے افراد نے ابوبکر کي بيعت سے انکار کيا اور علي کي طرف مائل ہوئے من جملہ عباس بن عبد المطلب، فضل بن عباس، زبير بن العوام، خالد بن سعيد، مقداد بن عمرو، سلمان فارسي، ابوذر غفاري، عمار بن ياسر، براء بن عازب، ابيّ بن کعب-

شايد اسي کے سبب بعض محققين اور مستشرقين کا خيال خام ہے کہ سقيفہ کے حادثہ کے بعد تشيع وجود ميں آئي ہے، مغربي مورخ گولڈ شيارڈ کہتا ہے کہ خلافت کي مشکل کے وقت بزرگ اصحاب کے درميان اس فرقہ (شيعيت) نے وجود پايا، اور اس گروہ نے خلفاء ثلاثہ ابوبکر، عمر، عثمان، کے انتخاب کي ملامت کي، جو کہ خاندان رسالت سے کسي قسم کي کوئي قربت نہيں رکھتے تھے او راسي سبب اس گروہ نے حضرت علي کو اس خلافت کے لائق جانتے ہوئے ان کو صاحب فضيلت جانا اور علي کو رسول کے قريب ترين لوگوں ميں شمار کيا اور جو چيز اس ميں مزيد فضيلت کا سبب بني وہ دختر رسول حضرت فاطمہ کا شوہر ہونا تھااور اس گروہ کو سنہري موقع نہ مل سکا جس ميں اپني بات ببانگ دہل کہہ سکيں-

خالد بن سعيد بن العاص کو رسول اکرم نے کسي کام کے لئے بھيجا تھا جب رسول کي وفات ہوگئي اور لوگوں نے ابوبکر کي بيعت کر لي تو اس وقت واپس آيا جب اس سے بيعت طلب کي گئي تو اس نے انکار کرديا-

عمر نے کہا: چھوڑ دو ميں اس کو ديکھ ليتا ہوں-

ابوبکر نے ان کو روکا، اسي طرح ايک سال کا عرصہ بيت گيا-

ابوبکر جارہے تھے وہ اپنے دروازے پر بيٹھا تھا، خالد نے ابوبکر کو آواز دي، ابوبکر آپ کو بيعت چاہيئے؟

انھوں نے کہا: ہاں-

اس نے کہا: آؤ، وہ آئے اور خالد نے ابوبکر کي بيعت اپنے دروازے پر بيٹھے بيٹھے کرلي-

حضرت علي کے طرفداروں کي يہ رسہ کشي ان دنوں تک چلي، جس دن تک عثمان کي زمامداري کا اعلان نہيں ہوگيا، جب تک عثمان کي توليت کا اعلان ہوتا ان دنوں تک اصحاب علي کا موقف سب پر واضح ہوگيا تھا تيسرے دن جس دن تک عمر نے لوگوں کو مشورہ کي اجازت دي تھي وہ آخري دن تھا-

عبد الرحمن بن عوف نے کہا: اے لوگو! مجھے ان دو لوگوں يعني عثمان و علي کے بارے ميں مشورہ دو- 

عمار بن ياسر نے کہا: اگر تم يہ چاہتے ہو کہ لوگوں کا اختلاف نہ ہو تو علي کي بيعت کرو-

مقداد نے کہا: سلمان سچ کہتے ہيں اگر تم نے علي کي بيعت کي تو ہم بسر و چشم اس امر ميں تمہاري اتباع کريں گے-

عبد اللہ بن ابي شرح نے کہا:اگر تم چاہتے ہو کہ قريش اختلاف رائے نہ کريں تو عثمان کي بيعت کرو-

عبد اللہ بن ربيعہ مخزومي نے کہا: اس نے سچ کہا اگر تم نے عثمان کي بيعت کي تو يہ تمہارے ساتھ ہيں-

عمار بن ياسر نے ابن ابي سرح کو بہت برا بھلا کہا اور کہا کہ تو کب سے اسلام کا خير خواہ ہوگيا؟

بني ہاشم اور بني اميہ ميں چہ ميگوئياں شروع ہوگئيں تو عمار کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو! خدا نے تم کو اپنے نبي کے ذريعہ سرفراز کيا اپنے دين کے سبب تم کو صاحب عزت بنايا آخر کب تک تم مسئلہ خلافت ميں اہل بيت سے روگرداني کرتے رہوگے-

(1) ابن عبد البر عبد اللہ ابن ابي سرح کے حالات بيان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ يہ فتح مکہ سے پہلے ايمان لايا تھا اور ہجرت کر گيا تھا اور رسول کے پاس وحي کي کتابت کرتا تھا پھر مرتد ہوگيا اور مشرک ہوگيا اور قريش مکہ کے پاس رہنے لگا اور کہتا پھر تا تھا کہ ميں جيسے چاہتا تھا ويسے محمد کو گھما ديتا تھا علي (عزيز حکيم) لکھتے تھے تو ميں نے کہا يا (عليم حکيم) تو انھوں نے کہا کہ دونوں صحيح ہے فتح مکہ کے وقت رسول نے اس کے قتل کا فرمان جاري کيااور فرمايا تھا کہ اگر کعبہ کے پردے کے پيچھے بھي چھپے تو بھي قتل کردو، کيونکہ اس نے عبد اللہ بن خطل، مقيس بن حبابہ کو قتل کيا تھا يہ وہاں سے بھاگا اور عثمان کے پاس جاکر پناہ لي يہ عثمان کا رضاعي بھائي تھا عثمان کو اس کي ماں نے دودھ پلايا تھا، عثمان نے اس کو چھپا ديا او رجب مکہ کي فضا پر امن ہوگئي تو عثمان رسول کے پاس ليکر آئے اور اس کي امان چاہي رسول بہت دير تک خاموش رہے اس کے بعد کہا: ”‌بہتر ہے“ جب عثمان چلے گئے تو رسول نے موجودہ لوگوں سے کہا کہ ميں صرف اس لئے خاموش ہوگيا تھا کہ اتنے ميں ايک شخص اس کي گردن اڑادے انصار ميں سے ايک نے کہا: آپ نے اشارہ نہيں کيا؟ آپ نے فرمايا: يہ رسالت کے شايان شان نہيں استيعاب، ج3، ص50، رقم 1571

بني مخزوم سے ايک شخص نے کہا کہ اے فرزند سميہ! تم اپني حد سے باہر نکل گئے ہو تم کون ہوتے ہو جو قريش کو اپنے ميں سے اپنا حاکم معين کرنے سے روکو-

سعد نے کہا: اے عبد الرحمن! اپنے کام کر گذرو، اس سے پہلے کہ لوگوں ميں فتنہ برپا ہوجائے، اس وقت عبد الرحمن نے حضرت علي کے سامنے شيخين (ابوبکر و عمر) کي پيروي کي تجويز رکھي تو آپ نے فرمايا: کہ ميں اپنے ذاتي فيصلہ پر عمل کروں گا (ان دونوں کي اتباع نہيں کروں گا) جب عثمان کے سامنے يہ تجويز رکھي گئي تو انھوں نے قبول کرلي اوران کي بيعت کرلي گئي-

حضرت علي نے فرمايا: يہ پہلا دن نہيں ہے جب تم لوگ ہمارے خلاف اکٹھے ہوئے ہو لہٰذا ميرا راستہ صبر جميل کا ہے اور اللہ تمہارے بيان کے مقابلہ ميں ميرا مددگار ہے بخدا تم نے خلافت ان کے حوالے اسي لئے کي تھي تاکہ وہ اس کو تمہارے حوالہ کرديں، اور خدا ہر روز ايک نئي شان والا ہے-

عبد الرحمن نے کہا: اے علي ! ان لوگوں کي باتوں پر کان نہ دھريئے گا وہ اس بات کا ارادہ کئے تھا کہ عمر ابوطلحہ کو حکم دے تاکہ اپنے مخالف کي گردن اڑاديں، اتنے ميں حضرت علي اٹھ کھڑے ہوئے اور کہتے ہوئے نکل آئے کہ عنقريب مقررہ مدت پوري ہو جائے گي-

عمار نے کہا: اے عبد الرحمن! خدا کي قسم تم نے اس ذات کا ساتھ چھوڑا ہے جو حق کے ساتھ بہترين فيصلہ کرنے والا تھا اور معاملات ميں حق و انصاف سے کام ليتا تھا-

مقداد نے کہا: خدا کي قسم اہل بيت رسول ميں رسول کے بعد اس شخص کے مثل کسي کو نہيں پايا-

قريش پر تعجب کا مقام ہے! کہ انھوں نے اس شخص کو چھوڑ ديا جس سے بہتر کسي کو عدل کے ساتھ فيصلہ کرنے والا، اعلم اور متقي ميں نہيں جانتا، خدا کي قسم اے کاش ميرا کوئي مددگار ہوتا-

عبد الرحمن نے کہا: اے مقداد! تقويٰ الٰہي اختيار کرو مجھے خوف ہے کہ تمہارے خلاف فتنہ نہ برپا ہوجائے-

جب عثمان کي توليت کا مسئلہ ختم ہوگيا تو دوسرے دن مقداد نکلے اور عبد الرحمن بن عوف سے ملاقات ہوگئي تو اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اگر تو نے رضايت پروردگار کي خاطر يہ کام انجام ديا ہے تو خدا تجھ کو اجر دے اور اگر حصول دنيا کي خاطر يہ ڈھونگ رچايا ہے تو خدا تيرے مال دنيا ميں بہتات کرے-

عبد الرحمن نے کہا: سنو! خدا تم پر رحمت نازل کرے، سنو! مقداد نے کہا: ميں بالکل نہيں سنوں گا اوراس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا ليا، اور وہاں سے حضرت علي کے پاس گئے اور کہا کہ آپ قيام کريئے ہم آپ کے شانہ بشانہ رہيں گے-

حضرت امير نے فرمايا: ”‌کس کے ساتھ مل کر جنگ کريں؟“

عمار ياسر آئے اور آواز دي کہ: اے لوگو! اسلام کا فاتحہ پڑھو، کيونکہ نيکياں ختم ہوگئيں اور منکرات جنم لے چکے ہيں-

خدا کي قسم اگر ميرے مددگار ہوئے توان سب سے جنگ کرتا، خدا کي قسم اگر کوئي ايک بھي ان سے جنگ کرنے کو تيار ہو تو ميں اس کي دوسري فرد ہوں گا-

اس وقت حضرت امير نے فرمايا: اے ابو اليقطان! خدا کي قسم ان لوگوں کے خلافت ميں اپنا مددگار نہيں پا رہا ہوں ميں نہيں چاہتا کہ تم لوگوں پر اس چيز کو تحميل کروں جس کي تم لوگ طاقت نہيں رکھتے-

يہاں سے علي کے چاہنے والوں کي اکثريت ميں اضافہ ہونے لگا بلکہ بسا اوقات تو نوبت يہاں تک پہنچ گئي کہ حق کو آزاد کرانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ان سب کے صبر کا پيمانہ لبريز ہوگيا تھا-

اگر حضرت امير ان افرادکي باتوں کو مان ليتے تو حکومت ہاتھ آجاتي، ليکن حضرت کي دور رس نگاہيں ان خطرات پر تھيں جو ان کے بعد سر اٹھاتے اور خط خلافت کے راہرؤ ں  کے دلوں سے خوب واقف تھے وہ لوگ ذکر مولائے کائنات کے سبب اکثريت کا اندازہ لگا رہے تھے اور اس بات کي وضاحت جندب بن عبد اللہ ازدي کي اس روايت سے ہو جائے گي-

جندب کہتے ہيں: کہ ميں مسجد رسول ميں داخل ہوا تو کيا ديکھا ايک شخص زانو کے بل بيٹھا ہے اور ايسے فرياد کر رہا ہے جيسے اس کي دنيا لٹ گئي ہو اور کہتا جاتا ہے کہ تعجب ہے قريش پر کہ انھوں نے اہلبيت رسول سے خلافت رسول کو دور کرديا جبکہ اہلبيت رسول ميں وہ شخص موجود ہے جو اول المومنين، رسول کا چچازاد بھائي، سب سے بڑا عالم، دين الٰہي کا فقيہ اعظم، اسلام کا ان داتا،راہوں کا واقف، صراط مستقيم کا ہادي ہے، قريش نے خلافت کو ہادي، رہبر، طاہر، نقي سے دور کرليا ان لوگوں نے امت کي اصلاح کي فکر نہيں کي اور نہ ہي مذہب کا بھلا چاہا، بلکہ ان لوگوں نے دنيا کو مقدم کر کے آخرت کو پس پشت ڈال ديا، خدا قوم ظالمين کو اپني نعمتوں سے دور رکھے-

ميں تھوڑا اس کے قريب گيا اور کہا کہ خدا تم پر رحمت نازل کرے تم کون ہو؟ اور يہ شخص کون ہے؟ اس شخص نے کہا: ميں مقداد بن عمرو اور يہ علي بن ابي طالب ہيں-

جندب کہتے ہيں، ميں نے کہا: تم اس اس امر کے لئے قيام کرو تاکہ ميں تمہاري مدد کرسکوں؟ 

اس شخص نے کہا:اے ميرے بھتيجے يہ ايک يا دو آدميوں کا کام نہيں ہے، ميں نکل کر باہر آيا اورابوذر سے ملاقات ہوئي ميں نے سارا ماجرا بيان کيا، توانھوں نے کہا: بھائي مقداد نے سچ کہا ہے-

پھر ميں عبد اللہ بن مسعود کے پاس آيا اور سارا ماجرا بيان کيا تو انھوں نے کہاکہ مقداد ہم کو بتا چکے ہيں اور ہم نے اس کوشش ميں کوتاہي نہيں کي-

ابن ابي الحديد نے تھوڑے اختلاف کے ساتھ اس روايت کو بيان کيا ہے۔  خلافت عثمان ميں اس کے بعد بہت سارے واقعات رونما ہوئے جو لوگوں کي ناراضگي کا سبب بنے اور نئي حقيقتوں کو ديکھ کر لوگوں کي آنکھيں کھل گئيں اور عثماني سياست کے خلاف يہ اختلاف شروع ہوا اور بڑھتے بڑھتے ايک بہت بڑا مسئلہ بن گيا اور لوگوں کو اس بات کا احساس ہوگيا جو خطا انھوں نے حضرت علي کے حق ميں کي تھي -

اور اس راہ ميں لوگوں نے اس بات کو درک کيا کہ علي اور اہلبيت سے روگرداني کے بہت گہرے نتيجے نکلے-

علي کے ابتدائي شيعہ، عمار، ابن مسعود، ابوذر غفاري، راہ راست کے قيام اور حق کو اصلي مرکز تک پلٹانے ميں پيش پيش تھے اور ان کي دعوت پر ايک کثير تعداد گوش برآواز ہوگئي اور بہت تيزي کے ساتھ کلامي رد و بدل اسلحہ کي صورت ميں خليفہ ثالث کے خلاف تبديل ہوگئي-

حذيفہيماني جو کہ علي کے پہلے درجہ کے شيعہ تھے وہ بستر موت پر تھے، جب ان سے خلافت کے حوالے سے سوال کيا گيا تو انھوں نے کہا کہ ميں وصيت کرتا ہوں کہ عمار کي پيروي کرنا-

لوگوں نے کہا: وہ علي سے جدا نہيں ہوئے-

حذيفہ نے کہا: حسد جسم کو ہلاک کرديتا ہے! علي سے قربت کے سبب تم لوگوں کوعمار سے نفرت ہے، خدا کي قسم عمار سے علي افضل ہيں مٹي اور بادل ميں کتنا فرق ہے عمار احباب ميں سے ہيں-

حذيفہ جانتے تھے کہ اگر وہ لوگ عمار کے ساتھ رہيں گے تو وہ علي کے ساتھ تو ہيں ہي-

جب حذيفہ کو يہ معلوم ہوا کہ حضرت (ذي قار نامي مقام پر) پہنچ گئے ہيں اور لوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کر رہے ہيں تو اپنے ساتھيوں کو طلب کيا اور ان کو ذکر خدا، زہد دنيا اور آخرت کي طرف رغبت کي دعوت دي اور کہا کہ امير المومنين جو کہ سيد المرسلين کے وصي ہيں ان سے ملحق ہو جاؤ اور حق يہي ہے کہ ان کي مدد کرو-

حذيفہ فتنہ کے خطرہ سے خائف تھے اور لوگوں کو حضرت کي ولايت کي دعوت دے رہے تھے جن دنوں شيعيان علي کو دعوت دي جارہي تھي اور يہ بات کہي کہ جو گروہ علي کي ولايت کي دعوت دے اس گروہ سے متمسک ہو جاؤ کيونکہ وہ حق اور راہ ہدايت پر ہيں-

ابوذر مسجد ميں بيٹھ کر کہا کرتے تھے کہ، محمد علم آدم اور انبياء کے جملہ فضائل کے وارث ہيں اور علي ابن ابي طالب وصي محمد اور وارث علم محمد ہيں، اے نبي کے بعد سرگرداں امت! اگر تم لوگوں نے اس کو مقدم کيا ہوتا جس کو خدا نے مقدم کيا اور اس کو مؤخر کيا ہوتا جس کو خدا نے مؤخر کيا اور اہل بيت رسول کي ولايت و واراثت کا اقرار کيا ہوتا تو ہر طرف و ہر طرح سے خوشحال رہتے، ولي خدا اپنے حق سے محروم نہ رہتا، نيز و اجبات الٰہي پر عمل ہوتا اور کوئي دو فرد بھي نہ ملتي جو حکم الٰہي ميں اختلاف نظر رکھتے اور اہلبيت کے پاس تم کو قرآن و سنت کا علم مل جاتا، مگر جو تم لوگوں نے کيا سو کيا، اپنے کرتوتوں کي سزا بھگتو، عنقريب ظالمين کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس صورت ميں پلٹائے جائيں گے-

عدي بن حاتم کہتے تھے کہ، خدا کي قسم اگر علم کتاب (قرآن) اور سنت نبوي کي بات ہے تو وہ يعني علي تم لوگوں ميں ان دونوں کے بہترين عالم ہيں، اگر اسلام کي بات ہے تو يہ رسول کے بھائي اور مرکز اسلام ہيں اگر زہد و عبادت محور ہے تو لوگوں ميں ان کا زہد نماياں اور عبادت آشکار ہے، اگر عقل اور مزاج معيار ہے تو لوگوں ميں عقل کل اور مزاج کے اعتبار سے کريم النفس انسان ہيں-

بيعت کے بعد وہ اصحاب جو حضرت علي کے خط تشيع پر گامزن تھے وہ پيغام جاري و ساري اور بڑھتا جارہا تھا اور روز بروز اس کے دائرہ اطاعت ميں وسعت آتي جارہي تھي اس ميں اصحاب و تابعين شامل ہو رہے تھے، لہٰذا ہم حضرت علي کے روز بيعت، مالک اشتر کو يہ کہتے ہوئے نہيں بھول سکتے کہ، اے لوگو! يہ وصي اوصياء، وارث علم انبياء، عظيم تجربہ کار، بہترين دين داتا، جس کے ايمان کي گواہي کتاب نے دي اور رسول نے جنت کي بشارت دي، جس پر فضائل ختم ہيں، متقدمين و مؤخرين نے ان کے علم ، فضل اور اسلام ميں سبقت پر شک نہيں کيا -

مالک اشتر نے اہل کوفہ کي نيابت ميں حضرت علي کي بيعت کي، طلحہ و زبير نے مہاجرين و انصار کي نيابت ميں بيعت کي، ابو الھيثم بن تيہان، عقبہ بن عمرو اور ابو ايوب نے مل کر کہا: ہم آپ کي بيعت اس حال ميں کر رہے ہيں کہ انصار و قريش کي بيعت ہماري گردنوں پر ہے (ہم ان کي نمايندگي کر رہے ہيں)-

انصار کا ايک گروہ اٹھا اور گويا ہوا، ان ميں سب سے پہلے ثابت بن قيس بن شماس انصاري جو کہ رسول کے خطيب تھے کھڑے ہوئے اور کہا کہ: خدا کي قسم اے امير المومنين! اگرچہ انھوں نے آپ پر خلافت ميں سبقت حاصل کرلي، ليکن دين الٰہي ميں پہل نہ کرسکے گو کہ انھوں نے کل آپ پر سبقت حاصل کرلي، ليکن آج آپ کو ظاہري حق مل گيا، وہ لوگ تھے اور آپ تھے ليکن کسي پر بھي آپ کا مقام پنہاں نہيں تھا، وہ جس کا علم نہيں رکھتے تھے اس ميں آپ کے محتاج تھے، اور آپ اپنے بے کراں علم کے سبب کبھي کسي کے محتاج نہيں رہے-

اس کے بعد خزيمہ بن ثابت انصاري ذوالشہادتين (جن کي ايک گواہي دو کے برابر رسول خدا نے قرار دي تھي) کھڑے ہوئے اور عرض کي: يا امير المومنين ہم نے خلافت کو آپ کے علاوہ کسي کے حوالے سے قبول نہيں کيا، آپ کے سوا کسي کے پاس نہيں گئے، اگر ہم سچے ہيں تو آپ ہماري نيتوں سے بخوبي واقف ہيں، آپ لوگوں ميں ايمان پر سبقت رکھتے ہيں، احکام الہٰي کے سب سے بڑے عالم ہيں، رسول خدا کے بعد مومنين کے مولا ہيں، جو آپ ہيں وہ، وہ کہاں! اور جو وہ ہيں، وہ آپ جيسے کہاں!

صعصعة بن صوحان کھڑے ہوئے اور عرض کي: خدا کي قسم اے امير المومنين! آپ نے خلافت کو زينت بخشي ہے خلافت نے آپ کي زينت ميں کوئي اضافہ نہيں کيا، آپ نے خلافت کو بلندي عطا کي اس نے آپ کو رفعت نہيں دي، يہي وجہ ہے کہ سب سے زيادہ خلافت آپ کي محتاج ہے-

مصنف:  صباح علي بياتي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان