• صارفین کی تعداد :
  • 3958
  • 2/9/2012
  • تاريخ :

حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے بہترين ايام

قرآن کریم

كوئي آدمى بھى حقيقتاً يہ نہيں جانتا كہ ان دس سال ميں حضرت موسى عليہ السلام پر كيا گزرى ليكن بلاشك يہ دس سال حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے بہترين سال تھے يہ سال دلچسپ، شيريں اور آرام بخش تھے نيز يہ دس سال ايك منصب عظيم كى ذمہ دارى كے لئے تربيت اور تيارى كے تھے _

درحقيقت اس كى ضرورت بھى تھى كہ موسى عليہ السلام دس سال كا عرصہ عالم مسافرت اور ايك بزرگ پيغمبر كى صحبت ميں بسر كريں اور چرواہے كاكام كريں تاكہ ان كے دل ودماغ سے محلول كى ناز پروردہ زندگى كا اثر بالكل محو ہوجائے حضرت موسى كو اتنا عرصہ جھونپڑيوں ميں رہنے والوں كے ساتھ گزارنا ضرورى تھا تاكہ ان كى تكاليف اور مشكلات سے آگاہ ہوجائے اور ساكنان محلول كے ساتھ جنگ كرنے كے لئے آمادہ ہوجائيں_

ايك اور بات يہ بھى ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كو اسرار آفرينش ميں غور كرنے اور اپنى شخصيت كى تكميل كے لئے بھى ايك طويل وقت كى ضرورت تھى اس مقصد كے لئے بيابان مدين اور خانہ شعيب سے بہتر اور كو نسى جگہ ہوسكتى تھى _

ايك اولوالعزم پيغمبر كى بعثت كوئي معمولى بات نہيں ہے كہ يہ مقام كسى كو نہايت آسانى سے نصيب ہوجائے بلكہ يہ كہہ سكتے ہيں كہ پيغمبر اسلام (ص) كے بعد تمام پيغمبروں ميں سے حضرت موسى عليہ السلام كى ذمہ دارى ايك لحاظ سے سب سے زيادہ اہم تھى اس لئے كہ : روئے زمين كے ظالم ترين لوگوں سے مقابلہ كرنا، ايك كثير الا فراد قوم كى مدت اسيرى كو ختم كرنا _

اور ان كے اندر سے ايام اسيرى ميں پيدا ہوجانے والے نقائص كو محو كرنا كوئي آسان كام نہيں ہے _

حضرت شعيب عليہ السلام نے موسى عليہ السلام كى مخلصانہ خدمات كى قدر شناسى كے طور پر يہ طے كرليا تھا كہ بھيڑوں كے جو بچے ايك خاص علامت كے ساتھ پيداہوں گے، وہ موسى عليہ السلام كو ديديں گے، اتفاقاً  مدت موعود كے آخرى سال ميں جبكہ موسى عليہ السلام حضرت شعيب عليہ السلام سے رخصت ہو كر مصر كو جانا چاہتے تھے تو تمام يا زيادہ تر بچے اسى علامت كے پيدا ہوئے اور حضرت شعيب عليہ السلام نے بھى انھيں بڑى محبت سے موسى عليہ السلام كو دے ديا _

يہ امر بديہى ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنى سارى زندگى چرواہے بنے رہنے پر قناعت نہيں كرسكتے تھے ہر چند ان كے لئے حضرت شعيب عليہ السلام كے پاس رہنا بہت ہى غنيمت تھا مگر وہ اپنا يہ فرض سمجھتے تھے كہ اپنى اس قوم كى مدد كے لئے جائيں جو غلامى كى زنجيروں ميں گرفتارہے اور جہالت نادانى اور بے خبرى ميں غرق ہے _

حضرت موسى عليہ السلام اپنا يہ فرض بھى سمجھتے تھے كہ مصر ميں جو ظلم كا بازار گرم ہے اسے سرد كريں،طاغوتوںكو ذليل كريں اور توفيق الہى سے مظلوموں كو عزت بخشيں ان كے قلب ميں يہى احساس تھا جو انھيں مصر جانے پر آمادہ كررہا تھا _

آخركار انھوں نے اپنے اہل خانہ، سامان واسباب اور اپنى بھيڑوں كو ساتھ ليا اوراس وقت موسى عليہ السلام كے ساتھ ان كى زوجہ كے علاوہ ان كا لڑكا يا كوئي اور اولاد بھى تھي، اسلامى روايات سے بھى اس كى تائيد ہوتى ہے تو ريت كے '' سفر خروج '' ميں بھى ذكر مفصل موجود ہے علاوہ ازيں اس وقت ان كى زوجہ اميد سے تھى _

وحى كى تابش اول

جب حضرت موسى عليہ السلام مدين سے مصر كو جارہے تھے تو راستہ بھول گئے يا غالبا ًشام كے ڈاكوئوں كے ہاتھ ميں گرفتار ہوجانے كے خوف سے بوجہ احتياط رائج راستے كو چھوڑكے سفر كررہے تھے _

بہركيف قرآن شريف ميں يہ بيان اس طور سے ہے كہ :''جب موسى عليہ السلام اپنى مدت كو ختم كرچكے اور اپنے خاندان كو ساتھ لے كر سفر پر روانہ ہوگئے تو انھيں طور كى جانب سے شعلہ آتش نظر آيا _

حضرت موسى عليہ السلام نے اپنے اہل خاندان سے كہا :'' تم يہيں ٹھہرو'' مجھے آگ نظر آئي ہے ميں جاتاہوں شايد تمہارے لئے وہاں سے كوئي خبرلائوں يا آگ كا ايك انگارالے آئوں تاكہ تم اس سے گرم ہوجائو''_

''خبر لائوں'' سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ راستہ بھول گئے تھے اور ''گرم ہوجائو''يہ اشارہ كررہاہے كہ سرد اور تكليف دہ رات تھى _

قرآن ميں حضرت موسى عليہ السلام كى زوجہ كى حالت كا كوئي ذكر نہيں ہے مگر تفاسير اور روايات ميں مذكورہے كہ وہ اميد سے تھيں اور انہيں دروازہ ہورہا تھا اس لئے موسى عليہ السلام پريشان تھے _

حضرت موسى عليہ السلام جس وقت آگ كى تلاش ميں نكلے تو انھوں نے ديكھا كہ آگ تو ہے مگر معمول جيسى آگ نہيں ہے، بلكہ حرارت اور سوزش سے خالى ہے وہ نور اور تابندگى كا ايك ٹكڑا معلوم ہوتى تھى ،حضرت موسى عليہ السلام اس منظر سے نہايت حيران تھے كہ ناگہاں اس بلندو پُر بركت سرزمين ميں وادى كے دا ھنى جانب سے ايك درخت ميں سے آواز آئي: ''اے موسى ميں اللہ رب العالمين ہوں ''_

اس ميں شك نہيں كہ يہ خدا كے اختيار ميں ہے كہ جس چيز ميں چاہے قوت كلام پيدا كردے يہاں اللہ نے درخت ميں يہ استعداد پيدا كردى كيونكہ اللہ موسى عليہ السلام سے باتيں كرنا چاہتا تھا ظاہر ہے كہ موسى عليہ السلام گوشت پوست كے انسان تھے، كان ركھتے تھے اور سننے كے لئے انہيں امواج صوت كى ضروت تھى البتہ انبياء عليہم السلام پر اكثر يہ حالت بھى گزرى ہے كہ وہ بطور الہام درونى پيغام الہى كو حاصل كرتے رہے ہيں ،اسى طرح كبھى انھيں خواب ميں بھى ہدايت ہوتى رہى ہے مگر كبھى وہ وحى كو بصورت صدا بھى سنتے رہے ہيں، بہر كيف حضرت موسى عليہ السلام نے جو آواز سنى اس سے ہم ہرگز يہ نتيجہ نہيں نكال سكتے كہ خدا جسم ركھتا ہے _

 اے موسى جوتى اتاردو

موسى عليہ السلام جب آگ كے پاس گئے اور غور كيا توديكھا كہ درخت كى سبز شاخوں ميں آگ چمك رہى ہے اور لحظہ بہ لحظہ اس كى تابش اور درخشندگى بڑھتى جاتى ہے جو عصا ان كے ہاتھ ميں تھا اس كے سہارے جھكے تاكہ اس ميں سے تھوڑى سى آگ لے ليں تو آگ موسى عليہ السلام كى طرف بڑھى موسى عليہ السلام ڈرے اور پيچھے ہٹ گئے اس وقت حالت يہ تھى كہ كبھى موسى عليہ السلام آگ كى طرف بڑھتے تھے اور كبھى آگ ان كى طرف، اسى كشمكش ميں ناگہاں ايك صدا بلند ہوئي ،اور انھيں وحى كى بشارت دى گئي _

اس طرح ناقابل انكار قرائن سے حضرت موسى عليہ السلام كو يقين ہوگيا كہ يہ آواز خدا ہى كى ہے، كسى غير كى نہيں ہے _

''ميں تيرا پروردگار ہوں، اپنے جوتے اتاردے كيونكہ تو مقدس سرزمين ''طوى ''ميں ہے ''_

موسى عليہ السلام كو اس مقدس سرزمين كے احترام كا حكم ديا گيا كہ اپنے پائوں سے جوتے اتاردے اور اس وادى ميں نہايت عجزوانكسارى كے ساتھ قدم ركھے حق كو سنے اور فرمان رسالت حاصل كرے _

موسى عليہ السلام نے يہ آوازكہ '' ميں تيرا پروردگار ہوں '' سنى تو حيران رہ گئے اور ايك ناقابل بيان پر كيف حالت ان پر طارى ہوگئي، يہ كون ہے ؟ جو مجھ سے باتيں كر رہا ہے ؟ يہ ميرا پروردگار ہے، كہ جس نے لفظ '' ربك ''  كے ساتھ مجھے افتخار بخشا ہے تاكہ يہ ميرے لئے اس بات كى نشاندہى كرے كہ ميں نے آغاز بچپن سے لے كر اب تك اس كى آغوش رحمت ميں پرورش پائي ہے اور ايك عظيم رسالت كے لئے تيار كيا گيا ہوں _''

حكم ملاكہ پائوں سے اپنا جوتا اتار دو، كيونكہ تو نے مقدس سرزمين ميں قدم ركھا ہے وہ سرزمين كہ جس ميں نور الہى جلوہ گرہے ، وہاں خدا كا پيغام سننا ہے ، اور رسالت كى ذمہ دارى كو قبول كرنا ہے، لہذا انتہائي خضوع اور انكسارى كے ساتھ اس سرزمين ميں قدم ركھو ،يہ ہے دليل پائوں سے جوتا اتارنے كى _

ايك حديث ميں امام صادق عليہ السلام سے ،حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے اس واقعہ سے متعلق ايك عمدہ مطلب نقل ہوا ہے ،آپ فرماتے ہيں : جن چيزوں كى تمہيں اميد نہيں ہے ان كى ان چيزوں سے بھى زيادہ اميد ركھو كہ جن كى تمہيں اميد ہے كيونكہ موسى بن عمران ايك چنگارى لينے كے لئے گئے تھے ليكن عہدہ نبوت ورسالت كے ساتھ واپس پلٹے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اكثر ايسا ہوتا ہے كہ انسان كسى چيز كى اميد ركھتا ہے مگر وہ اسے حاصل نہيں ہوتى ليكن بہت سى اہم ترين چيزيں جن كى اسے كوئي اميد نہيں ہوتى لطف پروردگار سے اسے مل جاتى ہيں .

قصص القرآن

منتخب از تفسير نمونه

تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي

مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم

تنظيم فارسى: حجة الاسلام و المسلمين سير حسين حسينى

ترتيب و تنظيم اردو: اقبال حيدر حيدري

پبليشر: انصاريان پبليكيشنز - قم

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان