موسى عليہ السلام كى مخفيانہ مدين كى طرف روانگي
فرعونيوں ميں سے ايك آدمى كے قتل كى خبر شہر ميں بڑى تيزى سے پھيل گئي قرائن سے شايد لوگ يہ سمجھ گئے تھے كہ اس كا قائل ايك بنى اسرائيل ہے اور شايد اس سلسلے ميں لوگ موسى عليہ السلام كا نام بھى ليتے تھے_
البتہ يہ قتل كوئي معمولى بات نہ تھى اسے انقلاب كى ايك چنگارى يا اس كا مقدمہ شمار كيا جاتاتھا اور درحقيقت يہ معاملہ كوئي اہم اور بحث طلب تھا ہى نہيں كيونكہ ستم پسند وابستگان فرعون نہايت بے رحم اور مفسد تھے انہوں نے بنى اسرائيل كے ہزاروں بچوںكے سرقلم كيے اور بنى اسرائيل پر كسى قسم كا ظلم كرنے سے بھى دريغ نہ كيا اس جہت سے يہ لوگ اس قابل نہ تھے كہ بنى اسرائيل كےلئے ان كا قتل احترام انسانيت كے خلاف ہو _
البتہ مفسرين كے لئے جس چيزنے دشوارياں پيدا كى ہيں وہ اس واقعے كى وہ مختلف تعبيرات ہيں جو خود حضرت موسى نے كى ہيں چنانچہ وہ ايك جگہ تو يہ كہتے ہيں:
''ھذا من عمل الشيطان ''
''يہ شيطانى عمل ہے ''_
اور دوسرى جگہ يہ فرمايا:
''رب انى ظلمت نفسى فاغفرلى ''
''خداياميںنے اپنے نفس پر ظلم كيا تو مجھے معاف فرمادے ''_
جناب موسى عليہ السلام كى يہ دونوں تعبيرات اس مسلمہ حقيقت سے كيونكر مطابقت ركھتى ہيں كہ :
عصمت انبيا ء كا مفہوم يہ ہے كہ انبيا ء ماقبل بعثت اور ما بعد عطائے رسالت ہر دو حالات ميں معصوم ہوتے ہيں '' _
ليكن حضرت موسى عليہ السلام كے اس عمل كى جو توضيح ہم نے آيات فوق كى روشنى ميں پيش كى ہے ، اس سے ثابت ہوتا ہے كہ حضرت موسى سے جو كچھ سرزد ہوا وہ ترك اولى سے زيادہ نہ تھا انھوں نے اس عمل سے اپنے آپ كو زحمت ميں مبتلاكرليا كيونكہ حضرت موسى كے ہاتھ سے ايك قبطى كا قتل ايسى بات نہ تھى كہ وابستگان فرعون اسے آسانى سے برداشت كرليتے_
نيز ہم جانتے ہيںكہ ''ترك اولى ''كے معنى ايسا كام كرنا ہے جو بذات خود حرام نہيں ہے_ بلكہ اس كا مفہوم يہ ہے كہ ''عمل احسن ''ترك ہوگيا بغير اس كے كہ كوئي عمل خلاف حكم الہى سرزد ہوا ہو؟
حكومت كى مشينرى اسے ايك معمولى واقعہ سمجھ كراسے چھوڑنے والى نہ تھى كہ بنى اسرائيل كے غلام اپنے آقائوں كى جان لينے كا ارادہ كرنے لگيں_
لہذا ہم قرآن ميں يہ پڑھتے ہيں كہ'' اس واقعے كے بعد موسى شہر ميں ڈررہے تھے اور ہر لحظہ انہيں كسى حادثے كا كھٹكا تھا اور وہ نئي خبروں كى جستجو ميں تھے ''_
ناگہاں انہيں ايك معاملہ پيش آيا آپ نے ديكھا كہ وہى بنى اسرائيلى جس نے گزشتہ روز ان سے مدد طلب كى تھى انھيں پھر پكاررہا تھا اور مدد طلب كر رہا تھا (وہ ايك اور قبطى سے لڑرہا تھا) _
''ليكن حضرت موسى عليہ السلام نے اس سے كہا كہ تو آشكارا طور پر ايك جاہل اور گمراہ شخص ہے''_
توہر روز كسى نہ كسى سے جھگڑ پڑتا ہے اور اپنے لئے مصيبت پيدا كرليتا ہے اور ايسے كام شروع كرديتا ہے جن كا ابھى موقع ہى نہيں تھا كل جو كچھ گزرى ہے ميں تو ابھى اس كے عواقب كا انتظار كرہا ہوں اور تونے وہى كام از سر نو شروع كرديا ہے _
بہر حال وہ ايك مظلوم تھا جو ايك ظالم كے پنجے ميں پھنسا ہو تھا ( حواہ ابتداء اس سے كچھ قصور ہوا ہو يانہ ہوا ہو ) اس لئے حضرت موسى كے لئے يہ ضرورى ہوگيا كہ اس كى مدد كريں اور اسے اس قبطى كے رحم و كرم پر نہ چھوڑديں ليكن جيسے ہى حضرت موسى نے يہ اراداہ كيا كہ اس قبطى آدمى كو (جو ان دونوں كا دشمن تھا ) پكڑ كر اس بنى اسرائيل سے جدا كريں وہ قبطى چلايا، اس نے كہا : اے موسى : كيا تو مجھے بھى اسى طرح قتل كرنا چاہتا ہے جس طرح تو نے كل ايك شخص كو قتل كيا تھا''_ ''تيرى حركات سے تو ايسا ظاہر ہوتا ہے كہ تو زمين پر ايك ظالم بن كر رہے گا اور يہ نہيں چاہتا كہ مصلحين ميں سے ہو ''_
اس جملے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام نے فرعون كے محل اور اس كے باہر ہر دو جگہ اپنے مصلحانہ خيالات كا اظہار شروع كرديا تھا بعض روايات سے يہ بھى معلوم ہوتا ہے كہ اس موضوع پر ان كے فرعون سے اختلافات بھى پيدا ہوگئے تھے اسى لئے تو اس قبطى آدمى نے يہ كہا :
يہ كيسى اصلاح طلبى ہے كہ تو ہر روز ايك آدمى كو قتل كرتاہے ؟
حالانكہ اگر حضرت موسى كا يہ ارادہ ہوتا كہ اس اس ظالم كو بھى قتل كرديں تو يہ بھى راہ اصلاح ميں ايك قدم ہوتا _
بہركيف حضرت موسى كو يہ احساس ہوا كہ گزشتہ روز كا واقعہ طشت ازبام ہوگيا ہے اور اس خوف سے كہ اور زيادہ مشكلات پيدا نہ ہوں ، انھوں نے اس معاملے ميں دخل نہ ديا
قصص القرآن
منتخب از تفسير نمونه
تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي
مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم
تنظيم فارسى: حجة الاسلام و المسلمين سير حسين حسينى
ترتيب و تنظيم اردو: اقبال حيدر حيدري
پبليشر: انصاريان پبليكيشنز - قم
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان