قائد ملت بہادر يار جنگ
علامہ افغاني کي وطنيت سے متعلق ان کے سيرت نگاروں ميں اختلاف ہے کہ وہ افغاني تھے يا ايراني- ايرانيوں کا دعويٰ ہے کہ وہ ايراني تھے اور اسدآباد کے رہنے والے !افغانيوں کا دعويٰ ہے کہ وہ افغاني تھے اور اسعدآباد کے رہنے والے ! وہ اسعد آباد کے باشندے ہوں يا اسد آباد کے- ليکن اس ميں کلام نہيں کہ وہ ہميشہ اسلام کے شير اور آسمانِ سعادت کے آفتاب تھے- ايک سو سال قبل اسلام کا يہ عظيم الشان فرزند بمقام اسعد آباد پيدا ہوا- گمنامي کي حالت ميں تعليم و تربيت حاصل کي- کس کو معلوم تھا کہ يہ آزادي و حريت کا علمبردار بن کر دنيائے اسلام کے لئے باعث فخر ثابت ہو گا- علامہ جمال الدين افغاني نے اپني عمر کے بيس سال بھي ختم نہ کئے تھے کہ انہوں نے سفر حج کا عزم کيا اور وہاں سے واپس آ کر امير دوست محمد خان کے دربار ميں ايک مقام پيدا کر ليا- دوست محمد خان کے انتقال کے بعد امير شير علي خان سے علامہ مرحوم کي نہ بني- علامہ مرحوم نے ان کے بڑے بھائي اعظم خان کا ساتھ ديا اور جب افغانستان کي زمين ان کے لئے تنگ ہو گئي تو وطن سے ہجرت کي اور مصر چلے گئے اور وہاں سے استنبول کا ارادہ کيا- علامہ کي باريک بين نگاہيں ملتِ اسلاميہ کي موجودہ حالت اور اس کي پستي کے اسباب کا پوري توجہ سے جائزہ لے رہي تھيں- انھوں نے محسوس کيا کہ جس جماعت کے دوش پر رہبري اور رہنمائي کي ذمہ داري ہے اور جو علمبردار دين و مذہب ہيں وہي اپني اتحادي قوتوں کے فقدان عمل سے بيگانگي، للہيت اور خلوص سے بعد اور نفسانيت و خود غرضي کے جذبات سے معمور ہو کر اسلام کي تباہي کا باعث ہو رہے ہيں- تو علامہ نے اپني زندگي کا سب سے پہلا مقصد يہي قرار ديا کہ اس جماعت کي اصلاح کي جائے- يہي وجہ ہے کہ استنبول ميں ان کي سب سے پہلي ٹکر شيخ الاسلام سے ہوئي- دارالخلافہ ميں علامہ ابھي کمر کھولنے نہ پائے تھے کہ خارج البلد کئے گئے وہاں سے پھر مصر آئے اور جامعہ ازہر کے طلبہ و علماء ميں اپنے خيالات کي اشاعت شروع کي- شيخ محمد عبدہ جيسا عظيم المرتبت شاگرد اور سعد زاغلول جيسا مستقبل ساز قائد تھوڑے ہي دنوں کي کاوش سے سيد مرحوم نے پيدا کر ليا-
اس وقت مصر پر خدايو اسمعيل حکومت کر رہا تھا- جو يورپ کے سرمايہ داروں کا مقروض ہو چکا تھا- آہستہ آہستہ سوئنر ہي نہيں بلکہ مملکت مصر بھي اس کے ہاتھوں سے چلي جا رہي تھي- اس وقت علامہ خاموش نہ بيٹھ سکے- مصر کو خديوسے نجات دلانے اور اسلامي ملک کو يورپ کے پنجہ حرص و آز سے بچانے کے لئے اپنے آپ کو وقف کر ديا- يہي سب سے بڑي خدمت تھي جو مصر ميں بيٹھ کر علامہ نے انجام دي علامہ مرحوم نے يہي مناسب سمجھا کہ خديو اسمعيل کو قتل کر کے يہاں کے تخت کو الٹ ديا جائے تاکہ دوسروں کے تسلط سے اس ملک کو بچايا جا سکے- علامہ نے شيخ عبدہ سے مل کر خديو کے قتل کا منصوبہ کر ليا تھا- ليکن اس اثنا ميں سلطانِ ترکي نے خديو اسمعيل کو معزول کر ديا- توفيق جانشين ہوئے- خديو توفيق تخت نشيني سے قبل سيد افغاني کي جماعت کا رکن اور ان کا ارادت کيش تھا- علامہ کے سارے منصوبوں سے واقف تھا- جب تخت نشيني کے بعد اس نے محسوس کيا کہ مغربي دوں کے آگے ہتھيار رکھنے پر وہ مجبور ہے تو اس نے علامہ کو حکم ديا کہ وہ مصر سے باہر چلے جائيں- سچ ہے کہ مقام حکومت و بادشاہت اور مقامِ دولت ہي ايسا مقام ہے جہاں انسانيت کو بمشکل باقي رکھا جا سکتا ہے
ماخوذ از مقامِ جما ل الدين افغاني- مرتب مبارز الدين رفعت،مطبوعہ نفيس اکيڈيمي حيدرآباد- دکن
پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
سيّد جمال الدين اسد آبادي ادبِ عربي کا ايک عجمي متعلم تھا