صرف ايك خاندان مومن اور پاك
فرآن سے بخوبى ثابت ہوتاہے كہ اس علاقے كى تمام آباديوں اور بستيوں ميں صرف ايك ہى خاندان مومن اور پاك نفس تھا اور خدانے بھى اسے عذاب سے نجات دى جيسا كہ قرآن ميں مذكور ہے :
''ہم نے وہاں ايك خاندان كے سوائے كوئي بھى مسلمان نہ پايا _''
يہاں تك كہ حضرت لوط كى زوجہ بھى مومنين كى صف سے خارج تھى اس لئے وہ بھى عذاب ميں گرفتار ہوئي _
وہ عورت جو خانوادہ نبوت ميں شامل تھى اسے تو ''مو منين اور مسلمين '' سے جدا نہيں ہونا چاہئے تھا مگر وہ اپنے كفرو شرك اور بت پرستى كى وجہ سے اس صنف سے جدا ہوگئي _
اس طرح كلام سے واضح ہوتاہے كہ وہ عورت منحرف العقيدہ تھى كچھ بعيد نہيں كہ اس ميں يہ بد عقيدگى اس مشرك معاشرے كے اثر سے پيداہوگئي ہو ا،ور ابتدا ميں مومن وموحد ہو اس صورت ميں حضرت لوط پر يہ اعتراض نہيں ہوتا كہ انھوں نے ايسى مشركہ سے نكاح ہى كيوں كيا تھا ؟
يہ خيال بھى ہوتاہے كہ اگر كچھ اور لوگ حضرت لوط عليہ السلام پر ايمان لائے ہوں گے تو وہ حتما ًنزول عذاب سے پہلے اس گناہ آلود زمين سے ہجرت كرگئے ہوں گے ،تنہا حضرت لوط عليہ السلام اور ان كے اہل وعيال اس مقام پر اس توقع سے آخرى وقت تك ٹھہرے ہوں گے كہ ممكن ہے ان كى تبليغ اور ڈرانے كا لوگوں پر اثرہو_
يہاں تك كہ حضرت ابراہيم عليہ السلام سے فرشتوں كى گفتگو ختم ہوگئي اور وہ حضرت لوط عليہ السلام كے علاقے كى طرف روانہ ہوگئے _
حضرت لوط عليہ السلام مہمانوں كو ديكھ كر پريشان ہوگئے
قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:
''جب ہمارے رسول،لوط (ع) كے پاس آئے تو وہ ان كے آنے پر بہت ہى ناراحت اور پريشان ہوئے ، ان كى فكر اور روح مضطرب ہوئي اور غم و اندوہ نے انہيں گھيرليا _''
اسلامى روايات اور تفاسير ميں آيا ہے كہ حضرت لوط اس وقت اپنے كھيت ميں كام كررہے تھے، اچانك انہوں نے خوبصورت نوجوانوں كو ديكھا جو ان كى طرف آرہے تھے وہ ان كے يہاں مہمان ہونا چاہتے تھے ،اب حضرت لوط(ع) مہمانوں كى پذيرائي بھى چاہتے تھے ليكن اس حقيقت كى طرف بھى ان كى توجہ تھى كہ ايسے شہر ميں جو انحراف جنسى كى آلود گى ميں غرق ہے_
ان خوبصورت نوجوانوں كا آنا طرح طرح كے مسائل كا موجب ہے اور ان كى آبروريزى كا بھى احتمال ہے، اس وجہ سے حضرت لوط سخت مشكل سے دوچار ہوگئے يہ مسائل ،روح فرسا افكار كى صورت ميں ان كے دماغ ميں ابھرے اور انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے آپ سے كہنا شروع كيا آج بہت سخت اورو حشتناك دن ہے _''
بہرحال حضرت لوط عليہ السلام كے پاس اس كے علاوہ كوئي چارہ كار نہ تھا كہ وہ اپنے نو وارد مہمانوں كو اپنے گھرلے جاتے، ليكن اس بناء پر كہ وہ غفلت ميں نہ رہيں راستے ميں چند مرتبہ ان كے گوش گزار كرديا كہ اس شہر ميں شرير اور منحرف لوگ رہتے ہيں تاكہ اگر مہمان ان كا مقابلہ نہيں كرسكتے تو صورت حال كا اندازہ كرليں_
خداوند عالم نے فرشتوں كو حكم ديا تھا كہ جب تك يہ پيغمبر تين مرتبہ اس قوم كى برائي اور انحراف كى گواہى نہ دے انہيں عذاب نہ ديا جائے ( يعنى يہاں تك كہ ايك گنہگار قوم سے متعلق بھى حكم خدا عدالت كے ايك عادلانہ فيصلے كى روشنى ميں انجام پائے)اور ان رسولوں نے راستے ميں تين مرتبہ لوط عليہ السلام كى گواہى سن لى _
حضرت لوط عليہ السلام نے مہمانوں كو اتنى دير تك (كھيت ميں ) ٹھہرائے ركھا كہ رات ہوگئي تاكہ شايد اس طرح اس شرير اور آلودہ قوم كى آنكھ سے بچ كر حفظ آبرو كے ساتھ ان كى پذيرائي كر سكيں ليكن جب انسان كا دشمن خود اس كے گھر كے اندر موجود ہوتو پھر كيا كيا جاسكتا ہے حضرت لوط عليہ السلام كى بيوى كو جوايك بے ايمان عورت تھى اور اس گنہگار قوم كى مدد كرتى تھى جب اسے ان نوجوانوں اور خوبصورت مہمانوں كے آنے كى خبر ہوئي تو چھت پر چڑھ گئي پہلے اس نے تالى بجائي پھر آگ روشن كركے اس كے دھوئيں كے ذريعے اس نے منحرف قوم كے بعض لوگوں كو آگاہ كيا كہ لقمہ تر جال ميں پھنس چكا ہے
قصص القرآن
منتخب از تفسير نمونه
تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي
مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم
تنظيم فارسى: حجة الاسلام و المسلمين سير حسين حسينى
ترتيب و تنظيم اردو: اقبال حيدر حيدري
پبليشر: انصاريان پبليكيشنز - قم
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
حضرت عزير عليہ السلام
وادى القرى ميں نو مفسد ٹولوں كى سازش
قوم ثمود كا انجام
ناقہ صالح
قوم صالح كى ہٹ دھرمي