قرآن کريم کي ظاہري اور حقيقي تعظيم
قرآن کريم کے احترام کے متعلق زيادہ تر جو کچھ آج اسلامي معاشروں ميں موجود ہے ان کو قرآن کا ظاہري احترام کہا جا سکتا ہے، جبکہ قرآن کريم ہرگز اس لئے نازل نہيں ہوا ہے کہ اس کے ساتھ ايک خاص (ظاہري) آداب و رسوم اور احترام بجالائيں، قرآن فقط حفظ کرنے اور بہترين دھن اور آواز کے ساتھ تلاوت کرنے کے لئے نہيں ہے- قرآن زندگي اور الٰہي پيغامات کي کتاب ہے کہ سب کا فريضہ ہے کہ اپني دنيوي زندگي ميں اس پر عمل کريں تاکہ دنيا و آخرت ميں کامياب ہوں، خصوصاً اسلامي معاشروں ميں حکومت کے عہدہ دار افراد کا فريضہ ہے کہ نظام کي کلي سياستوں کو اس کتاب الٰہي کي ہدايات کي بنياد پر تنظيم کر کے ان کا اجرا کريں، تاکہ قرآن کے مکتب فکر کے پھلنے پھولنے کا مقدمہ معاشرہ کے افراد کے لئے بہتر طور سے مہيا ہواور نتيجہ ميں نزول قرآن کا مقصد پورا ہو جائے کہ اس کا مقصد يہي ہے کہ روئے زمين پر عدل و انصاف کے زير سايہ انسان کا تکامل اور اس کي سعادت ممکن ہے-
افسوس ہے کہ اس اميد کے برخلاف، جو کچھ آج ہم قرآن کريم کي تعظيم و تکريم کے عنوان سے مشاہدہ کر رہے ہيں وہ ظاہري احترام کي حد سے آگے نہيں بڑھتا اور قرآن کي مرکزيت کا لازمہ مسلمانوں کي سياسي و اجتماعي زندگي ميں بھلا ديا گيا ہے-
آج بہت سے اسلامي ممالک ميں بہت سے ادارے، ابتدائي کلاسوں سے کالج اور يونيورسٹي کي سطح تک قرآن کريم کي تعليم و تعلم کا انتظام کرتے ہيں اور مختلف طريقوں سے قرآن کے ناظرے، حفظ اور قرائت کا اہتمام کرتے ہيں اور ہر سال ہم عالمي پيمانے پر قرآن کريم کے حفظ و قرائت کے مقابلوں کا مشاہدہ کرتے ہيں- مختلف قرآني علوم جيسے تجويد و ترتيل وغيرہ قرآن کے عقيدتمندوں کے درميان ايک خاص اہميت رکھتے ہيں- ان امور کے علاوہ قرآن عام مسلمانوں کے درميان ايک خاص احترام کا حامل ہے مثلاً اس کے الفاظ و آيات کو بغير وضو کے مس نہيں کرتے اور قرائت کے وقت ادب کے ساتھ بيٹھتے ہيں، زيادہ تر افراد قرآن کے مقابل اپنا پاؤ ں نہيں پھيلاتے، اس کو سب سے زيادہ بہتر جلد ميں اور سب سے زيادہ مناسب جگہ پر رکھتے ہيں، خلاصہ يہ کہ اس طرح کے ظاہري احترام عام مسلمانوں کے درميان رائج ہيں-
واضح ہے کہ مذکورہ امور کي رعايت اس آسماني کتاب کے احترام کے عنوان سے ايک بڑي فضيلت ہے کہ جس قدر بھي ہم ان کے پابند ہوں بہتر ہے ليکن ہم نے اس آسماني کتاب کے احترام کا حق کماحقہ ادا نہيں کيا ہے اور خداوند متعال کي اس عظيم نعمت کا شکر جو کہ نعمت ہدايت ہے، بجا نہيں لائے ہيں ، ليکن ہر نعمت کا سب سے زيادہ احترام اور شکر اس کي حقيقت کي شناخت او راس کا اس جگہ استعمال ہے کہ خدا نے جس کے لئے خلق کيا ہے-
چنانچہ اگر ہم اس نظريہ کے ساتھ چاہيں کہ قرآن کو ديکھيں اور اس کا احترام و اکرام کريں تو يہي دکھائي ديتا ہے کہ قرآن کريم اسلامي معاشروں کے کلچر ميں ايک مطلوب منزلت نہيں رکھتا اور اس کا حقيقي طور پر احترام نہيں کيا جاتا-
قرآن کريم کے احترام و اکرام سے متعلق مسلمانوں کا جو عمل بيان کيا گيا ہے، وہ اگرچہ ضروري اور لازم ہے، ليکن ان امور کي انجام دہي سے خداوند متعال کے قرآن نازل کرنے کا مقصد پورا نہيں ہوتا اور اس آسماني کتاب کے بارے ميں مسلمانوں کا جو فريضہ ہے وہ بھي پايہ تکميل تک نہيں پہنچتا- ظواہر قرآن کي معرفت، آيات الٰہي کي قرائت اور اس نسخہء شافيہ کي ظاہري تعظيم و تکريم، اس کے مطالب اور احکام پر عمل کرنے کا مقدمہ ہيں- قرآن کا واقعي حق، مسلمانوں کي سياسي و اجتماعي زندگي ميں اس کو محور قرار ديئے بغير ادا نہيں ہوسکتا-
واضح سي بات ہے کہ ڈاکٹر کے نسخے کو چومنا، اس کا احترام کرنا اور اس کو بہترين دھن اور ميٹھي آواز کے ساتھ پڑھنا، بغير اس کے کہ ڈاکٹر کي ہدايات اور اس کے احکام کو سمجھيں اور ان پر عمل کريں، بيمار کے کسي بھي درد کا مداوا نہيں کرتا- ہر عقلمند يقين رکھتا ہے کہ شفا کے لئے ماہر ڈاکٹر کے احکام پر عمل کرنا لازم ہے- ڈاکٹر کے نسخہ کا حقيقي احترام اس پر عمل کرنا ہے نہ کہ ڈاکٹر اور اس کے نسخہ کي تعظيم و تکريم کرنا ہے-
قرآن کے متعلق بھي کہنا چاہئے کہ اگرچہ قرآن کريم کا ظاہري احترام کرنا، پسنديدہ امور اور ہر ايک مسلمان کے فرائض ميں سے ہے، ليکن يہ اس آسماني کتاب کے بارے ميں مسلمانوں کا سب سے معمولي فريضہ ہے، اس لئے کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ قرآن کريم کو سمجھنے اور اس کے حيات بخش احکام پر عمل کرنے کے ذريعے اس ہدايت الٰہي کي نعمت کا شکر او رواقعي احترام بجالائيں اور اپنے کو اس پُرفيض امانت سے محروم نہ کريں تاکہ نتيجہ ميں ا س نور الٰہي کے ذريعے اپني اندھيري دنيا کو روشني بخشيں-