جانا ، پہنچنا ہے
ہم موج ہيں اور ہمارا وصل اپنے آپ سے دور ہونا ہے
ساحل ايک بہانہ ہے ، جانا ہي پہنچنا ہے
جب تک ہمارے ذہن ميں جوش ہے ہم آگ کي تتيلي کي مانند ہيں
ہم شمع ہيں اور ہمارا آنسو اپنے آپ کے اندر قطره قطره ٹپکنا ہے
ہم بغير پروں کے پرندے ہيں ، ہم دوسروں کي فوج ہيں
ہمارے پر کي اڑان خون ميں تڑپنے کي طرح ہے
ہم کچھ بھي نہيں ہيں سواۓ اپنے ہي سايے کے
آئينے کا قانون خود کو نہ ديکھنا ہے
تو نے کہا مجھے پڑھ ، ہم نے پڑھا اور تم خاموش ہو
جواب يہي کہ تمہيں اکيلے سننا ہے
بغير درد اور بغير غم کے ہوتا ہے پکے ہوۓ کو توڑنا
ہم کچے ہيں اور ہمارا درد کچے ہوۓ کو توڑنا ہے
تحرير : سيد اسداللہ ارسلان
پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان
متعلقہ تحريريں:
ايراني شاعر علي رضا قزوہ اور مصر کا انقلاب