• صارفین کی تعداد :
  • 4707
  • 10/22/2011
  • تاريخ :

وقف و وصل

قرآن حکیم

کسي عبارت کے پڑھنے ميں انسان کو کبھي ٹھرنا پڑتا ھے اور کبھي ملانا پڑتا ھے ، ٹھرنے کا نام وقف ھے اور ملانے کا نام وصل ھے -

وقف

وقف کے مختلف اسباب ھوتے ھيں - کبھي يہ وقف معني کے تمام ھو جانے کي بناء پر ھوتا ھے اورکبھي سانس کے ٹوٹ جانے کي وجہ سے - دونوں صورتوں ميں جس لفظ پر وقف کيا جائے اس کا ساکن کر دينا ضروري ھے -

وصل

وصل کے لئے آخري حرف کا متحرک ھونا ضروري ھے تاکہ اگلے لفظ سے ملا کر پڑھنے ميں آساني ھو ورنہ ايسي صورت پيدا ھو جائے گي جو نہ وقف قرار پائے گا نہ وصل -

وقف کي مختلف صورتيں

حرف " ت"  پر وقف

اس صورت ميں اگر" ت"  کھينچ کر لکھي گئي ھے تو اسے" ت" ھي پڑھا جائے گا جيسے صلوات اور اگر گول " ة"  لکھي گئي ھے تو حالت وقف ميں " ھ" ھو جائے گي جيسے صلواة ، حالت وقف ميں صلواہ ھو جائے گي -

تنوين پر وقف

اگر تنوين دو زير اور دو پيش سے ھو تو حرف، ساکن ھو جائے گا اور اگر دو زبر ھو تو تنوين کے بدلے الف پڑھا جائے گا مثال کے طورپر " نورٌ "  اور" نورٍ" " کو " نورْ " پڑھا جائے گا اور" نوراً " کو "  نوراَ " پڑھا جائے گا -

وقف و وصل کي غلط صورتيں

واضح ھو گيا کہ وقف و وصل کے قانون کے اعتبار سے حرکت کو باقي رکھتے ھوئے وقف کرنا صحيح ھے اور سکون کو باقي رکھتے ھوئے وصل کرنا صحيح نھيں ھے -

وقف بحرکت

اس کا مطلب يہ ھے کہ وقف کيا جائے اور آخري حرف کو متحرک پڑھا جائے جيسے مالک يوم الدينِ اياک نعبد

وصل بسکون

اس کے معني يہ ھيں کہ ايک لفظ کو دوسرے لفظ سے ملا کر پڑھا جائے ليکن پھلے لفظ کے آخر ي حرف کو ساکن رکھا جائے جيسے  الرحمن الرحيم - مالک يوم الدين  کو ايک ساتھ ايک سانس ميں پڑہ کر رحيم کي ميم کو ساکن پڑھا جائے -

وقف کے بعد ؟

کسي لفظ پر ٹہھرنے کے لئے يہ بھر حال ضروري ھے کہ اسے ساکن کيا جائے ليکن اس کے بعد اس کي چند صورتيں ھو سکتي ھيں :

1- حرف کو ساکن کر ديا جائے اسے اسکان کھتے ھيں جيسے"  احد "

2- ساکن کرنے کے بعد پيش کي طرح ادا کيا جائے اسے اشمام کھا جاتا ھے جيسے " نستعين "

3- ساکن کرنے کے بعد ذرا سا زير کا اندازپيدا کيا جائے اسے " روم " کھا جاتا ھے جيسے " عليہ" -

4- ساکن کرنے کے بعد زير کو زيادہ ظاھر کيا جائے اسے اختلاس کھتے ھيں جيسےصالح -

اقسام وقف

کسي مقام پر ٹھھرنے کي چار صورتيں ھو سکتي ھيں :

1- اس مقام پر ٹھھرا جائے جھاں بات لفظ و معني دونوں اعتبار سے تمام ھو جائے - جيسے " مالک يوم الدين"  - کہ اس جملہ کا بعد کے جملہ "  اياک نعبد و اياک نستعين" سے کوئي تعلق نھيں ھے -

2- اس مقام پر ٹھھرا جائے جھاں ايک بات تمام ھو جائے ليکن دوسري بھي اس سے متعلق ھو جيسے" ممّا رزقنا ھم ينفقون " کہ اس منزل پر يہ جملہ تمام ھو گيا ھے ليکن بعد کا جملہ " والذين يومنون " ---بھي انھيں لوگوں کے اوصاف ميں سے ھے جن کا تذکرہ گزشتہ جملہ ميں تھا -

3- اس مقام پر وقف کيا جائے جھاں معني تمام ھو جائے ليکن بعد کا لفظ پھلے ھي لفظ سے متعلق ھو جيسے"  الحمد للہ " پر وقف کيا جا سکتا ھے ليکن " رب العالمين" لفظي اعتبار سے اس کي صفت ھے الگ سے کوئي جملہ نھيں -

4- اس مقام پر وقف کيا جائے جھاں نہ لفظ تمام ھو نہ معنيٰ جيسے "  مالک يوم الدين" ميں لفظ " مالک " پر وقف کہ يہ بغير "  يوم الدين " کے نہ لفظي اعتبار سے تمام ھے اور نہ معناکے اعتبار سے- ايسے مواقع پر وقف نھيں کرنا چاھئے -

وقف جائز و لازم

وقف کے مواقع پر کبھي کبھي بعد کے لفظ سے ملادينے ميں معني بالکل بدل جاتے ھيں جيسے " لم يجعل لہ عوجا - قيما " کہ عوجا اور قيما کے درميان وقف لازم ھے ورنہ معني منقلب ھو جائيں گے- پروردگار يہ کھنا چاھتا ھے کہ ھمارے قانون ميں کوئي کجي نھيں ھے اور وہ قيم ( سيدھا ) ھے- اگر دونوں کو ملا ديا گيا تو مطلب يہ ھو گا کہ ھماري کتاب ميں نہ کجي ھے اور نہ راستي اور يہ بالکل غلط ھے - ايسے وقف کو وقف لازم کھا جاتا ھے اور اس کے علاوہ جملہ اوقاف جائز ھيں -

رموز اوقاف قرآن

دنيا کي دوسري کتابوں کي عبارتوں کي طرح قرآن مجيد ميں بھي وصل و وقف کے مقامات ھيں - بعض مقامات پر معني تمام ھوجاتے ھيں اور بعض جگھوں پر سلسلہ باقي رھتا ھے اور چونکہ ان امور کا امتياز ھر شخص کے بس کي بات نھيں ھے اس لئے حضرات قاريان کرام نے ان کي جگھيں معين کر دي ھيں اور ان کے احکام و علامات بھي مقرر کر دئے ھيں تاکہ پڑھنے والے کو سھولت ھو اور وقف کي جگہ وصل يا وصل کي جگہ وقف کر کے معني کي تحريف کا خطا کار نہ ھو جائے -

ان مقامات کے علاوہ کسي مقام پر سانس ٹوٹ جائے تو آخري حرف کو ساکن کر ديا جائے اور دوبارہ پھلے لفظ سے تلاوت شروع کي جائے تاکہ کلام کے تسلسل پر کوئي اثر نہ پڑے

-عام طور پر قرآن کريم ميں حسب ذيل رموز و علامات ھوتے ھيں :

ظ- جھاں بات پوري ھو جاتي ھے وھاں يہ علامت ھوتي ھے -

م- اس مقام پر وقف لازم ھے لھذا ملا کر پڑھنے سے معني بدل جائيں گے -

ط- وقف مطلق کي علامت ھے لھذايھاں وقف کرنا بھتر ھے -

ج - وقف جائز کي علامت ھے لھذا ملا کر بھي پڑھا جا سکتا ھے ليکن وقف کرنا بھتر ھے -

ز- ٹھھرنا جائز ھے البتہ ملا کر پڑھنا بھتر ھے -

ص- وقف کرنے کي اجازت دي گئي ھے - مگر اس شرط کے ساتھ کہ دوبارہ ايک لفظ کو پھلے سے دھرا کر شروع کرے -

صل- قد يوصل کا خلاصہ ھے - يعني يھاں کبھي ٹھھرا بھي جاتا ھے اور کبھي نھيں ليکن ٹھھرنا بھتر ھے -

صلي - الوصل اوليٰ کا خلاصہ ھے يعني ملاکر پڑھنا بھتر ھے - اگر چہ وقف کرنا بھي غلط نھيں ھے -

ق- قسيل عليہ الوقف کا خلاصہ ھے يھاں نھيں ٹھھرنا چاھئے -

قف- يہ علامت ھے کہ يھاں وقف ھونا چاھئے -

س يا سکتہ - سکتہ کي نشاني ھے کہ يھاں قدر ے ٹھھرکر آگے بڑھنا چاھئے ليکن سانس نہ ٹوٹے -

وقفہ - لمبے سکتہ کي نشاني ھے- يھاں سکتہ کي بہ نسبت زيادہ ٹھھرنا چاھئے مگر سانس نہ توڑے -

لا- اگر درميان آيت ميں ھو تو وقف نھيں کرنا چاھئے اور آخر آيت پر ھو تو اختيار ھے ٹھرے يا نہ ٹھرے -

.. - معانقہ ھے - يعني دو لفظوں يا عبارتوں کے قبل يا بعد يہ علامت ھوتي ھے ان ميں ايک جگہ وقف کرنا چاھئے اور ايک جگہ وصل -

ک- کذٰلک کا مختصر ھے يعني اس وقف کا حکم اس کے پھلے والے وقف کا ھے - وہ لازم تھا تو يہ بھي لازم ھے اور وہ جائز تھا تو يہ بھي جائز ھے -

اہل البيت پورٹل


متعلقہ تحريريں:

کيفيات و صفات حروف

علوم قرآن کي اصطلاح (حصّہ دوّم)

علوم قرآن کي اصطلاح

قرآن مجيد کي آيات ميں محکم اور متشابہ سے کيا مراد ہے؟ (حصّہ دوّم)

قرآن مجيد کي آيات ميں محکم اور متشابہ سے کيا مراد ہے؟