• صارفین کی تعداد :
  • 3883
  • 9/19/2011
  • تاريخ :

قرآني معارف كا ڈھانچہ اور نظام

قرآن حکیم

1 خدا كي معرفت

اس ميں خدا كي معرفت، توحيد، صفات الہي اور كليات افعال باري تعالي كي بحثيں شامل ہيں

2 كائنات كي معرفت

اس ميں كائنات (زمين، آسمانوں اور ستاروں) ، فضائي موجودات (رعد و برق و بادو باراں و غيرہ) اور زميني مخلوقات (پہاڑ اور دريا وغيرہ) نيز ضمني طور پرعرش و كرسي فرشتہ، جن اور شيطان وغيرہ سے متعلق بحثيں شامل ہيں -

ظاہر سے افعال باري تعالي سے متعلق كليات… جو پہلے حصہ ميں انجام پاتے ہيں… كے بعد خود افعال كے تفصيلات (خلق و تدبير وغيرہ) كے ذكر كي نوبت آتي ہے اور طبيعي طور پر كائنات كي پيدائش كا ذكر انسان كي پيدائش پر مقدم ہے

3 انسان كي معرفت

اس ميں انسان كي پيدائش، روح كي خصوصيت، انساني شرافت و عظمت، ذمہ دارياں اور ان كے شرائط (آگاہي، قوت، عمل، اختيار)، انساني وجود كے مختلف پہلو، فردي و اجتماعي تدبيروں ميں الہي سنتيں، معاد اور انسان كا آخري انجام، وغيرہ سے متعلق بحثيں شامل ہيں -

اس مرحلے ميں روشن و واضح ہوجاتا ہے كہ دنيوي زندگي اخروي زندگي كا مقدمہ ہے يہ انساني زندگي كا وہ مرحلہ ہے جس ميں انساني كو خود اپنے لئے راہِ سعادت كا انتخاب كرنا چاہيئے اور اپنے آخري انجام كي داغ بيل ڈالنا چاہيئے اس دنيا ميں الہي حكمتيں انتخاب كے مقدمات (ابتلا و آزمائش وغيرہ) كي فراہمي كے محور پر گردش كرتي ہے -

4 راوہ و روش كي معرفت

اس منزل ميں شناخت و معرفت كے عادي طريقوں (يعني دنيا ميں رائج علم حضوري و علم حصولي كي مختلف قسموں) اور غير عادي طريقوں (يعني وحي و الہام وغيرہ) سے متعلق بحثيں شامل ہيں يہيں نبوت كا مسئلہ بعثت انبياء كي ضرورت اور مقاصد، نيز ان كے مدارج (نبوت، رسالت و امامت اور اسي طرح معجزہ و عصمت سے متعلق مسائل بيان ہوتے ہيں اور آخر ميں انبياء كي جانشيني كے مسئلے (يعني امامت اپنے خاص معنوں) پر بحث ہوتي ہے.

بحث كے اس مرحلے كا تعلق اپنے گذشتہ مرحلے سے واضح ہے كيونكہ جب يہ معلوم ہوگيا كہ انسان ايك ايسي مخلوق ہے جس كو انتخاب كي آزادي حاصل ہے يعني اسے اپني راہ كا تعين آزادانہ طور پر خود كرنا ہے راہ و روش كي معرفت كي ضرورت خود بخود پيش آتي ہے اور اس مرحلے ميں يہي چيزموضوع بحث ہے -

5 رہبر و رہنما كي معرفت

اس منزل ميں انبياء كي تاريخ اور ان ميں سے ہر ايك كے خصوصيات ان پر نازل ہونے والي كتابيں ان ميں پيش كئے جانے والے مطالب، پيغمبراسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلّم كي تاريخ اور آنحضرت كے زمانہ حيات ميں رونما ہونے والے حوادثات وواقعات بيان كئے جاتے ہيں ضمني طور پر تمام قرآني داستانيں اور اقوام و ملل كي تاريخ بھي اسي ذيل ميں ذكر كئے جاتے ہيں اس حصہ كا اپنے گذشتہ حصہ كے ساتھ ربط اور ترتيب بيان واضح ہے كيونكہ جب وحي و نبوت كي ضرورت و اہميت سے ہم واقف ہوگئے تو اب ان حاملان وحي و رسالت كي معرفت كي نوبت آتي ہے جو پيغام وحي عوام الناس تك پہنچاتے رہے ہيں -

6. قرآن كي معرفت

اس ميں قرآن سے متعلق اصولي و كلياتي مباحث اس كے خصوصيات، نزول كا مقصد، نزول كا انداز، اعجازي حيثيت، آفاقي ابدي شان، اسلوب بيان (عقلي استدلال، موعظہ، جدال احسن تمثيل و قصص وغيرہ) نيز محكم و متشابہ اور تاويل وغيرہ سے متعلق بحثيں شامل ہيں گذشتہ بحث سے اس كا بھي ربط اور ترتيب بيان واضح ہے اس لئے كہ گذشتہ آسماني كتابوں كے ذكر و بحث كے بعد آخري و ابدي كتاب كي شناخت و معرفت فطري سي بات ہے.

7. اخلاق اور انساني تعمير

اس ميں خود انسان كي اپني معرفت اور اپني تعمير سے متعلق تمام بحثيں شامل ہيں، افعال اختياري ميں خيرو شر كا وجود اور ان كا آخري كمال وسعادت كے ساتھ ربط، قرآني تربيت و تزكيہ نفس كي روش (انذار وبشارت كے ذريعہ تلاش خير كا جذبہ بيدار كرنا وغيرہ) انساني تعمير ميں ايمان و عمل كا كردار اور ان كا ايك دوسرے سے رابطہ نيز ان دونوں كا علم سے ارتباط اور بالآخر اخلاق فاضلہ و اخلاق رذيلہ كي تفصيلات اس بحث كا حصہ ہيں -

”قرآن كي شناخت و معرفت ”‌ كے بعد ”اخلاق اور انساني تعمير”‌ كا ذكر اس لئے ہے كہ گذشتہ بحث ميں ہم اسي نتيجہ تك پہنچتے ہيں كہ قرآن كا ہدف و معصد تزكيہ و تعليم ہے تزكيہ اخلاق اور انساني تعمير سے متعلق بحثوں كو جنم ديتا ہے اور تعليم آئندہ مباحث كو وجود ميں لائي ہے -

8. قرآن كے عبادي احكام

اس ميں نماز و روزہ، حج و قرباني اور ذكر و دعاسے متعلق بحثيں شامل ہيںيعني جہاںوہ اعمال ذكر ہوتے ہيں جو بنيادي طور پر انسان اور خدا كے درميان رابطہ كو تقويت پہنچاتے ہيں اگرچہ اجتماعي مصلحتوں كا بھي ان ميں بہت زيادہ خيال ركھا گيا ہے-

9. قرآن كے فردي احكام

اس ميں خوردونوش (يعني كھانا، پينا، شكار كرنا اور ذبيحہ كرنا وغيرہ) نيز زينت و آرائش اور تڑك بھڑك سے متعلق حرام و حلال كے احكام بيان كئے جاتے ہيں -

10. قرآن كے اجتماعي احكام

اس ميں تمام حقوقي، اجتماعي، سياسي و اقتصادي بحثيں شامل ہيں جن كو مندرجہ ذيل عنوانات كے تحت تقسيم كيا جا سكتا ہے:

الف) شہري ومدني احكام

ب) اقتصادي و معاشي احكام

ج) قانوني و عدالتي احكام

د) حدود و جزاء كے احكام

ہ) سياسي و حكومتي احكام

و) عالمي و بين الاقوامي احكام

اور بحث كے اس حصے ميں مقدمہ كے طور پر ”معاشرہ قرآن كي نظر ميں”‌ بحث كا مركز قرار پاتا ہے -

اس تقسيم كے آخري تين حصوں ميں انسان سے متعلق قرآن كے پيش كردہ علمي پہلوؤ ں پر روشني ڈالي جاتي ہے ايك كا تعلق انسان اور خدا، دوسرے كا تعلق انسان اور خود اس كي ذات اور تيسرے كا تعلق انسان اور معاشرے يا انسان اور دوسرے انسانوں سے ہے اور ہر حصہ سے متعلق اس آسماني كتاب كي تعليمات كو جدا گانہ طور پر مورد بحث و تحقيق قرار ديا جاتا ہے -

اس طرح ہم ديكھتے ہيں كہ قرآني معارف عالم ہستي كے نقطہ  آغاز سے شروع ہوتے ہيں اور خلق و تدبير الہي كے مراحل بالترتيب زير بحث آتے ہيں اور يہ سلسلہ ايك ايسے معاشرے كے خصوصيات كے ذكر پر منتہي ہوتا ہے جو انسان كي ديرينہ آرزو ہے اور ان تمام مراحل ميں اپنے اصل محور ”ذات خدا”‌ سے ان كا ارتباط بھي باقي و محفوظ رہتا ہے -

بشکريہ رضويہ اسلامک ريسرچ سينٹر


متعلقہ تحريريں:

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ ششم)

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ پنجم)

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ چهارم)

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ سوّم)

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ دوّم)