• صارفین کی تعداد :
  • 3584
  • 9/19/2011
  • تاريخ :

آيات کي تقسيم كا تيسرا طريقہ

قرآن حکیم

يہ ہے كہ خود اللہ كو محور قرار ديں اور قرآني معارف كي تقسيم بندي عرض ميں نہيں بلكہ ايك دوسرے كے طول ميں انجام ديں يعني قرآني معارف كو ايك ايسے بہتے ہوئے دريا اور آبشار كي مانند خيال كريں كہ جس كا منبع و سرچشمہ فيض الہي ہے يہ جس منزل اور مرحلے ميں پہنچتا ہے سيراب كرديتا ہے-

”اَنزلَ مِنّ السّمَاءِ فَسَالَت اَودي بقدرھا…”‌ (رعد/)

”خداوند عالم آسمان سے جو پاني برساتا ہے اپني ظرفيت كے اعتبار سے ہر وادي اس سے استفادہ كرتي اور سيراب ہوتي ہے”‌

ہميں اسلامي معاف كو ايك بہتا ہوا چشمہ خيال كرنا چاہيئے جو ايك مرحلے سے گزركر دوسرے مرحلہ ميں وارد ہوتا ہے اور ان مرحلوں كے تقسيمات طولي ہيں عرضي نہيں ہيں ابتداء ايك مخصوص نقطہ سے يہ چشمہ ابلنا شروع كرتا ہے جب وہ جگہ لبريز ہوجاتي ہے اس كا فيضان دوسري جگہ پہلي جگہ پہنچتا ہے اب يہ دوسري جگہ كي فرع قرار پائے گي نہ يہ كہ اسي كے برابر اور اسي كي قسيم ہو اگر چہ ايك منزل ميں ان طولي تقسيمات سے بھي مختلف شاخيں پھوٹنا شروع كرديتي ہيں پھر بھي بنيادي طور پر اسلامي معارف كو طول مراتب كے اعتبار سے ہي ملحوظ نظر ركھنا چاہيئے? ہماري نظر ميں يہ قاعدہ چند دليلوں كے تحت قابل ترجيح ہے

پہلي دليل اس ميں محور خدا كي ذات ہے اور اس كے برابرو مساوي كسي بھي چيز كو قرار نہيں ديتے:

ھُوَالاَوّل وَالآخرُ وَالظّاھِرُ وَالبَاطِنُ (حديد/)

وہي (خدا) اول بھي ہے اور آخر بھي ظاہر بھي ہے اور باطن بھي

دوسري تقسيمات كے برخلاف كہ جس ميں يا تواصل محور انسان كي مانند كسي دوسري شئي كو قرار ديتے ہيں يا اگر توحيد و عقائد سے بھي بحث كرتے ہيں تو اسي كے برابر و متساوي اخلاق و احكام كا اعتقادات كے قسيم كے طور پر ذكر كرتے ہيں… ليكن اس تقسيم ميں ابتدائي طور پر ايك كے علاوہ كوئي بھي دوسري بحث نہيں ہے اور نہ ہي اس كے متوازي كسي دوسري بحث كو ركھنے كي گنجائش ہے جب تك يہ بحث حل نہ ہو اور اس سے فارغ نہ ہوجائيں دوسرے مرحلے اور دوسري بحث تك پہنچنے كا سوال ہي پيدا نہيں ہوتا پس پہلا امتياز تو يہ ہے كہ يہ تقسيم بندي الله كو محور قرار دے كر انجام پاتي ہے اور دوسري خصوصيت يہ ہے كہ تمام مسائل و تقسيمات كے درميان ايك منطقي ترتيب پيدا ہوجاتي ہے، كيونكہ جب ان مختلف بحثوں كا سلسلہ آپس ميں مربوط ہو تو فطري طور پر پہلے كي بحث بعد كي بحث پر كسي نہ كسي نوعيت سے مقدم ہوگي، كہ جو واضح اور قابل فہم ہے اس كے برخلاف دوسري وہ تقسيمات جن ميں مختلف بحثوں كو ايك دوسرے كے عرض ميں متوازي قرار ديتے ہيں ايك كو دوسرے پر مقدم قرار دينا توجيہ و وضاحت كا محتاج ہوگا بلكہ بعض اوقات اس ميں مشكل بھي پيش آسكتي ہے -

فرض كيجئے انسان كي فردي و اجتماعي حيثيت، اس كے وجود كے دو پہلوہيں اب سوال يہ ہے كہ اس كے فردي جنبہ كو پہلے بيان كريں يا اجتماعي پہلو كو؟ يا يہ كہ ان دونوں پہلوؤ ں كو مقدم سمجھيں؟ يا سرے سے كوئي دوسري تقسيم اس كے مادي و معنوي جنبہ كے پيش نظر كريں؟ يہ ايك مسئلہ ہے ليكن اگر مختلف عنوانات كے درميان ايك فطري وطبعي موجود ہوا اور اسي طرح فطري و منطقي ترتيب كے تحت تقسيم بندي انجام پائے تو تقدم و تاخر كے لئے ہمارے پا س ايك روشن و واضح دليل موجود ہوگي اور اس طرح ايسا محكم و منسجم نظام وجود ميں آئے گا، جس ميں گذشتہ قاعدوں كي طرح اعتراض كي گنجائش رہے گي -

بنابراين بہتر ہے كہ تمام معارف قرآني كا اصل محور ”اللہ”‌ كو قرارديں، جو قرآني تعليمات سے بھي مكمل طور پر ہم آہنگ ہے سب سے پہلے خدا كي معرفت اور انسان كي معرفت سے متعلق مسائل سے ابتدا كريں اس كے بعد تمام انساني مسائل پر الہي تعليم و تربيت و تدبير و حكمت كي روشني ميں بحث كريں اس طرح قرآني معارف كا ايك ايسا منظم و مرتب نظام وجود ميں آئے گا جس كا اصل محور بھي اصات و حقيقت پر مبني ہوگا اور اس كے گرد بننے والے دائروں كے درميان بھي ايك نظم و ترتيب اور ربط و تعلق پايا جائے گا -

بشکريہ رضويہ اسلامک ريسرچ سينٹر


متعلقہ تحريريں:

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ پنجم)

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ چهارم)

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ سوّم)

قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ دوّم)

کيا قرآن کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت ميں منحصر ہے؟