قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ (حصّہ پنجم)
قرآني معارف كي تقسيم بندي جو قرآن كي تفسير موضوعي كے ساتھ منسلك ہے (يعني آيات قرآني كو موضوعات كے تحت الگ الگ تقسيم كرديں اور ان كے مفاہيم سمجھنے كي كوشش كريں نيز انكے درميان رابطہ كو پيش نظر ركھيں) يہ كام اگر چہ ضروري ہے مگر اس ميں كچھ دشوارياں بھي ہيں
قرآني معارف كي ترتيب و تقسيم كے لئے ہميں موضوعات سے متعلق ايك خاص نظم و ترتيب ملحوظ نظر ركھنا چاہيئے، اس كے بعد ہر موضوع سے متعلق آيتيں تلاش كرنا پھر ايك دوسرے كے ساتھ ملا كر ديكھنا اور ان كے بارے ميں غور و فكر كرنااور ان كے مبھم نكات كو روشن و واضح كرنے كے لئے ان ہي آيتوں ميں ايك دوسرے سے مدد حاصل كرنا چاہيئے يعني قرآن سے قرآن كي تفسير كرنا چاہيئے وہي راہ جو علامہ طباطبائي طاب ثراہ نے اپني تفسيرالميزان ميں دكھائي اور اپنائي ہے ليكن اس بات كي طرف بھي متوجہ رہنا ضروري ہے كہ جب ہم نے ايك آيت كو اس كے مخصوص سياق سے نكال كرالگ كرليا اور اس كے قبل و بعد كے رعايت كئے بغير تنہا اسي كو اپنا محور قرار ديا تو ممكن ہے آيت كے حقيقي مطلب تك ہم نہ پہنچ سكيں، دوسرے لفظوں ميں قرآن ميں كلامي قرائن پائے جاتے ہيں اور يہ قرائن كبھي آيت سے پہلے كبھي اس كے بعد اور كبھي كبھي تو دوسرے سوروں ميں نظر آتے ہيں ا ن قرائن پر توجہ كئے بغير آيتوں كے حقيقي و واقعي مطالب تك رسائي حاصل نہيں كي جا سكتي -
اب اگر ہم چاہتے ہيں كہ ان حالات سے دوچار نہ ہوں اور آيتيں سب ايك دوسرے سے جدا اور ٹكڑے ٹكڑے ہو كر اپنے واقعي مطلب سے ہاتھ نہ دھو بيٹھيں تو ہميں كافي دقت نظر سے كام لينا ہوگا يعني كسي آيت كو كسي موضوع كے تحت قرار دينے سے پہلے اس آيت كے قبل و بعد پر بھي نظر كرليناچاہيئے اگر احتمال پيدا ہو كہ قبل و بعد كي آيتوں ميں كوئي قرينہ موجود ہے تو اس كا بھي ذكر كرنا چاہيے اس ميں كوئي حرج كي بات نہيں ہے كہ ہم جس آيت سے استفادہ كرنا چاہتے ہيں اس كا قبل و بعد كي آيتوں كے ساتھ ذكر كريں اور دونوں حصوں كو بريكيٹ ميں لكھ ديں تاكہ آيت سے استفادہ كرتے وقت متعلقہ ”گفتگو كے قرائن” كي طرف سے غفلت كا شكار نہ ہوں -
ميں اس نكتہ كي طرف ايك بار پھر متوجہ كرنا ضروري سمجھتا ہوں كہ ہميشہ آيت كے قبل و بعد اس كے قرائن پر غور و فكر كے بعد ہي كسي آيت سے استدلال كرنا چاہيئے، حتي مقالہ نگار كو خود اس مرحلے سے دوچار ہونا پڑا ہے كہ بعض وقت ايك آيت سے متعلق غور و فكر كے بعد اظہار نظر كرتا ہوں اور پھر ايك مدّت كے بعد متوجہ ہوتا ہوں كہ اس سے قبل كي آيت ميں قرينہ موجود تھا جس كي طرف اس وقت متوجہ نہيں ہوسكا تھا اگر اس كي طرف متوجہ ہوگيا ہوتا تو استدلال ميں اور زيادہ استحكام پيدا ہو جاتا يا يہ كہ استدلال كا رخ كچھ اور ہوتا لہذا ہميں اس نكتہ كي طرف سے ہرگز غفلت نہيں برتنا چاہئے -
جب ہم قرآن كے مفاہيم و معارف كي تقسيم بندي پر مجبور ہيں اور اس تقسيم بندي كے نتيجہ ميں طبيعي طور پر آيتوں كي بھي تقسيم بندي كرنا پڑے گا (يعني ہر باب كے ذيل ميں چند آيتوں كا ذكر ضروري ہوگا) تو ہميں يہ ديكھنا ہوگا كہ آيتوں كي يہ تقسيم بندي كس بنياد پر اور كس نظام كے تحت انجام ديں -
سبھي جانتے ہيں كہ قرآن كريم ميں انساني كتب ميں رائج تقسيم بندي كے طريقوں كو پيش نظر نہيں ركھا گيا ہے بہت ہي كم ايسے سورے مليں گے حتي ايك سطري سورے كيوں نہ ہوں جن ميں شروع سے آخر تك صرف ايك موضوع پر گفتگو كي گئي ہو زياد تر… حتي ايك ہي آيت ميں …كئي كئي مطالب سموديئے گئے يں اس طرح ايك ہي آيت مختلف پہلوğ اور گوناگوں رخون سے قابل استفادہ نظر آتي ہے مثلا ايك ہي آيت ميں اعتقادي پہلو بھي موجود ہے اور اخلاقي بھي، تاريخي پہلو بھي ہے اور تشريعي بھي وغيرہ وغيرہ چنانچہ آيات كے تجزيے ميں يہ بھي ايك مشكل پيش آتي ہے البتہ اس مشكل كا حل يہ ہے كہ ايك ہي آيت كو ہم متعلقہ مختلف عنوانوں كے تحت تكراري طور پر ذكر كرسكتے ہيں -
بشکريہ رضويہ اسلامک ريسرچ سينٹر
متعلقہ تحريريں:
کيا قرآن کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت ميں منحصر ہے؟
قرآن مجيد اللہ تعالي کي طرف سے ايک عظيم تحفہ
قرآن کريم کس طرح معجزہ ہے؟ (حصّہ سوّم)
قرآن کريم کس طرح معجزہ ہے؟ (حصّہ دوّم)
قرآن کريم کس طرح معجزہ ہے؟