قرآن مجيد اور اخلاقي تربيت ( حصّہ ہفتم )
”فرعون والوں ميں سے ايک مرد مومن نے کہا جو اپنے ايمان کو چھپائے ہوئے تھا کہ کيا تم کسي شخص کو صرف اس بات پرقتل کرناچاہتے ہو کہ جو اللہ کو اپنا پروردگار کہتا ہے جب کي وہ اپنے دعوے پر کھلي ہوئي دليليں بھي لا چکا ہے - تو آگاہ ہوجاو اگر وہ جھوٹا ہے تو اپنے جھوٹ کا ذمہ دار ہے - ليکن اگر سچا ہے تو بعض وہ مصيبتيں آسکتي ہيں جن کا وہ وعدہ کر رہا ہے- بے شک خدا زيادتي کرنے والے اور شک کرنے والے انسان کي ہدايت نہيں کرتا ہے-
اس آيت کريمہ ميں مرد مومن نے اپنے صريحي ايمان کي پردہ داري ضرور کي ہے ليکن چند باتوں کا واشگاف اعلان بھي کر ديا ہے جس کي ہمت ہر شخص ميں نہيں ہو سکتي- يہ بھي اعلان کرديا ہے کہ يہ شخص کھلي ہوئي دليليں لے کر آيا ہے- يہ بھي اعلان کر ديا ہے کہ وہ اگر جھوٹا ہے تو تم اس کے جھوٹ کے ذمہ دار نہيں ہو، اور نہ تمہيں قتل کرنے کا کوئي حق ہے- يہ بھي اعلان کرديا ہے کہ وہ اگر سچا ہے تو تم پر عذاب نازل ہو سکتا ہے- يہ بھي اعلان کرديا ہے کہ يہ عذاب اس کي وعيد کا ايک حصہ ہے ورنہ اس کے بعد عذاب جہنم بھي ہے- يہ بھي اعلان کرديا ہے کہ تم لوگ زيادتي کرنے والے اور حقائق ميں تشکيک کرنے والے ہو ، اور ايسے افراد کبھي ہدايت يافتہ نہي ہوسکتے- اور ادبي شجاعت کا اس سے بہتر کوئي مرقع نہيں ہو سکتا ہے کہ انسان فرعونيت جيسے ماحول ميں اس قدر حقائق کے اظہار اور اعلان کے اظہار کي جرأت و ہمت رکھتا ہو-
واضح رہے کہ اس آيت کريمہ ميں پروردگار عالم نے اس مرد مومن کو مومن بھي کہا ہے اور اس کے ايمان کے چھپانے کا بھي تذکرہ کيا ہے جو اس بات کي دليل ہے کہ ايمان ايک قلبي عقيدہ ہے اور حالات و مصالح کے تحت اس کے چھپانے کو کتمان حق سے تعبير نہيں کيا جاسکتا ہے جيسا کہ بعض دشمنان حقائق کا وطيرہ بن گيا ہے کہ ايک فرقہ کي دشمني ميں تقيہ کي مخالفت کرنے کرنے کے لئے قرآن مجيد کے صريحي تذکرہ کي مخالفت کرتے ہيں اور اپنے ليے عذاب جہنم کا سامان فراہم کرتے ہيں- قال ماخطبکن اذراودتن يوسف عن نفسہ قلن حاش للہ ما علمنا عليہ من سوء قالت امرأة العزيز الآن حصحص الحق اناراوتہ عن نفسہ و انہ لمن الصادقين” (يوسف 51)
”جب مصر کي عورتوں نے انگلياں کاٹ ليں اور عزيز مصر نے خواب کي تعبير کے لئے جناب يوسف کو طلب کيا تو انہوں نے فرماياکہ عورتوں سے دريافت کرو کہ انہوں نے انگلياں کاٹ ليں اور اس ميں ميري کيا خطا ہے؟-- عزيز مصر نے ان عورتوں سے سوال کيا تو انہوں نے جواب دياکہ خدا گواہ ہے کہ يوسف کي کوئي خطا نہيں ہے-- توعزيز مصر کي عورتوں نے کہا کہ يہ سب ميرا اقدام تھا اور يوسف صادقين ميں سے ہيں اوراب حق بالکل واضح ہوچکاہے-” اس مقام پر عزيز مصر کي زوجہ کا اس جرأت وہمت سے کام لينا کہ بھرے مجمع ميں اپني غلطي کا اقرار کرليا اور زنان مصر کا بھي اس جرأت کا مظاہرہ کرنا کہ عزيز مصرکي زوجہ کي حمايت ميں غلط بياني کرنے کے بجائے صاف صاف اعلان کر ديا کہ يوسف ميں کوئي برائي اور خرابي ہے -
بشکريہ رضويہ اسلامک ريسرچ سنٹر
متعلقہ تحريريں:
قرآن مجيد اور اخلاقي تربيت ( حصّہ چہارم )
قرآن مجيد اور اخلاقي تربيت ( حصّہ سوّم )
قرآن مجيد اور اخلاقي تربيت ( حصّہ دوّم )
فرشتوں کے ہم نشين بن جاؤ ( حصّہ دوّم )
فرشتوں کے ہم نشين بن جاؤ