• صارفین کی تعداد :
  • 1821
  • 8/30/2011
  • تاريخ :

قرآن مجيد اور اخلاقي تربيت ( حصّہ ششم )

قرآن حکیم

ادبي شجاعت

ميدان جہاد ميں زور بازو کا مظاہرہ کرنا يقينا ايک عظيم انساني کارنامہ ہے ليکن بعض روايات کي روشني ميں اس سے بالاتر جہاد سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کا زبان پر جاري کرنا ہے اور شايد اس کا راز يہ ہے کہ ميدان جنگ کے کارنامے ميں بسا اوقات نفس انسان کي ہمراہي کرنے کے ليے تيار ہوجاتا ہے اور انسان جذباتي طور بھي دشمن پر وار کرنے لگتا ہے جس کا کھلا ہوا ثبوت يہ ہے کہ مولائے کائنات حضرت علي عليہ السلام نے عمرو بن عبدود کي بے ادبي کے بعد اس کا سر قلم نہيں کيا اور سينے سے اتر آئے جہاد راہ خدا ميں جذبات کي شموليت کا احساس نہ پيدا ہوجائے ليکن سلطان جائر کے سامنے کلمہ حق کے بلند کرنے ميں نفس کي ہمراہي کے بجائے شديد ترين مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں نفس انساني کبھي ضائع ہوتے ہوئے مفادات کي طرف متوجہ کرتا ہے اور کبھي آنے والے خطرات سے آگاہ کرتا ہے اور اس طرح يہ جہاد ”‌جہاد ميدان” سے زيادہ سخت تر اور مشکل تر ہوجاتا ہے جسے روايات ہي کي زبان ميں جہاد اکبر سے تعبير کيا گيا ہے- جہاد باللسان بظاہر جہاد نفس نہيں ہے ليکن غور کيا جائے تو يہ جہاد نفس کا بہترين مرقع ہے خصوصيت کے ساتھ اگر ماحول ناسازگار ہواور تختہ دار سے اعلان حق کرنا پڑے-

قرآن مجيد نے مرد مسلم ميں اس ادبي شجاعت کو پيدا کرنا چاہا ہے اور اس کا منشأ يہ ہے کہ مسلمان اخلاقيات ميں اس قدر مکمل ہو کہ اس کے نفس ميں قوت تحمل و برداشت ہو- اسکے دل ميں جذبہ ايمان و يقين ہو اور اس کي زبان، اس کي ادبي شجاعت کا مکمل مظاہرہ کرے جس کي تربيت کے ليے اس نے ان واقعات کي طرف اشارہ کيا ہے- ”‌قال رجل مومن من آل فرعون يکتم ايمانہ أ تقتلون رجلاً ان يقول ربي اللہ و قد جائکم بالبينات و ان يک کاذباً فعليہ کذبہ و ان يک صادقاً يصبکم بعض الذي يعدکم ان اللہ لا يہدي من ہو مسرف مرتاب-” (غافر 26)

بشکريہ رضويہ اسلامک ريسرچ سنٹر


متعلقہ تحريريں:

قرآن مجيد اور اخلاقي تربيت ( حصّہ سوّم )

قرآن مجيد اور اخلاقي تربيت ( حصّہ دوّم )

فرشتوں کے ہم نشين بن جاؤ ( حصّہ دوّم )

فرشتوں کے ہم نشين بن جاؤ

قرآن مجيد اور اخلاقي تربيت