علوم قرآن کي اصطلاح
علومِ قرآن کي اصطلاح اور اس کي تقسيم بندي
صدر اسلام ہي سے اہل علم و دانش صحابہ تابعين اور تبع تابعين علوم قرآن ميں سے کسي ايک يا چند علوم ميں مہارت رکھتے تھے اورانہوں نے خاص موضوعات ميں تحريريں اور کتب يادگار چھوڑي ہيںمثلاً ابو عبيد قاسم بن سلام (متوفي224) نے بقول ابن نديم کے درج ذيل کتب تحرير کي ہيںغريب القرآن، معاني القرآن،القرائات،کتاب عدد آي القران، کتاب ناسخ ومنسوخ اور فضائل القرآن يہ تمام موضوعات اصطلاحاً علوام القرآن کہلاتے ہيں-
ابن نديم نے ابن کامل کے حالاتِ زندگي بيان کرتے ہوئے انہيں ” احمد المشہورين في علوم القرآن” قرار ديا ہے- اس سے پتہ چلتا ہے کہ چوتھي صدي اور ابن نديم کے زمانہ سے ہي علوم قرآني کي اصطلاح رائج رہي ہے البرھان في علوم القرآن اور الاتقان ميں بنيادي طور پر انہيں علوم پر بحث کي گئي ہے-
متقدمين نے اپنے ذوق اور سليقہ کے مطابق علوم قرآن کي تقسيم بندي کي ہےمثلاً جلال الدين سيوطي نے نزول قرآن کو رات دن،سردي و گرمي،سفرحضروغيرہ ميں تقسيم کر کے علوم قرآن کي 80 اقسام بيان کي ہيں- نے علامہ قطب الدين شيرازي (متوفي648) نے علوم قرآن کو بارہ موضوعات ميں تقيسم کيا ہے متقدمين کے نظريات سے آگا ہي حاصل کرنے کے لئے ہم قطب الدين شيرازي کي آراء و نظريات کا يہاں پر تذکرہ کريں گے-
علوم القرآن کي تقسيم
قطب الدين شيرازي کہتے ہيں
علم فروع دو قسموں کا ہےايک مقصود اور دوسرا تبع مقصود، مقصود کے چار رکن ہيں پہلارکن علم کتاب ہے اور اسکي بارہ اقسام ہيں-
1- علم قرائت: اسکي دو اقسام ہيں ايک قرائات سبع، جو کہ نبي کريم سے تواتر سے مروي روايات سے اخذ ہوتي ہيں اور ان کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے-
اور دوسري شواذّ اور يہ آحاد کي روايات کي ساتھ مروي ہے اور اسکے ساتھ نماز پڑھنا درست نہيں ہے-
2- علم وقوف : يعني آيات کہاں پر ختم ہوتي ہيں اور دوران آيت کہاں پر وقف کيا جاسکتا ہے اور يہ منقولي علم ہے
بعض اوقات کلمات قرآن قياس کے حکم کي بنا پر ايک آيت شمار ہوتے ہيں ليکن بحکم روايت ايک سے زيادہ آيات ہوتي ہيں مثلاًالحَمدُلِلِہ رَبِّ العَالِمينَ اَلرَّحمنِ الَّرحيِم ماَلِک يوَمِ الدّين قياس کے حساب سے ايک کلام ہے کيونکہ يہ سب صفات ايک ہي موصوف کي ہيں پس بنابراين قياس اسے ايک آيت ہونا چاہيے ليکن بحکم روايت يہ تين آيات ہيں ليکن بعض مواقع پر اس کے برعکس بھي ہو سکتا ہےجيسے سورہ بقرہ کي آخري آيت ہے قارئين کو معلوم ہونا چاہيے کہ وقف کے سبب معاني بھي مختلف ہو جاتے ہيں جيسا کہ اس آيت ميں ہے وَماٰيعلم تاَوِيلَہ اِلاَّاللہُ والراسخُونَ فيِ العلم اگر يہاں پر وقف کريں تو مراد يہ ہو گي کہ متشابہات کي تاويل خدا جانتا ہے اور وہ لوگ جو علم ميں راسخ ہيں اور اگر اللہ پر وقف کريں تو معني ہو گا کہ صرف خدا ہي تاويل متشابہات جانتا ہے-
3- علم لُغاتِ قرآن کا جاننا بھي ايک مفسر کے لئے انتہائي ضروري ہوتا ہے-
4- علم اعراب ہے اس علم کے جانے بغيرتفسير قرآن کا شروع کرنا جائزنہيں ہے کيونکہ قرآن کے معافي لغت اور اعراب کي وساطت سے جانے جاتے ہيں
5- علم اسباب نزول قرآن کو23 سال کي مدت ميں مختلف مناسبتوں سے اور مختلف مقامات پر نازل کيا گيا ہے جن کا علم رکھنا ضروري ہے-
6- علم ناسخ و منسوخ مکلف پر لازم ہے کہ وہ ناسخ پر عمل کرے نہ کہ منسوخ پر-
7- علم تاؤيل بعض مقامات پر لفظ ظاھراً نفي پر دلالت کرتا ہے مگر مراد اثبات ہوتي ہے جيسے
لااقسم بيوم القيٰمة
ميں قيامت کے دن کي قسم کھاتا ہوں-
اور اسي طرح
وما منعک ان لاتسجد
آپ کو کس چيز نے سجدہ کرنے سے روکا-
اور ايسي مثاليں بہت زيادہ ہيں-
کبھي ايک لفظ” عَلَم” ہوتا ہے اور مراد ايک شخض ”خاص” ہوتا ہے
” قاَلَ لَہُم النّاَسُ انَّ الناَّسَ قَد جَمَعُو اَلکُم"
ناس اول سے مراد نعيم بن مسعود ہے اور کبھي اس کے برعکس بھي ہوتا ہے جيسے
فاعلم اَنَّہّ لاٰاِلٰہَ اِلاَّاللہ
يہاں پر مامور اگرچہ معين فردہے ليکن مراد جملہ مکلّفين ہيں
8- علم قصص ميں بہت سي حکمتيں ہيں- اوّلاً علم قصص سے نيکوں اوربُروں کي عاقبت معلوم ہوتي ہے اوراس طرح لوگوں کواطاعت کي طرف رغبت اور گناہ سے اجتناب کي ترغيب ملتي ہے-
ثانياًچونکہ حضرت محمد صلي اللہ عليہ والہ وسلم اُمّي تھے اور آپ نے کسي کي شاگردي اختيار نہ کي تھي لہذا آپ جب گذشتہ اقوام و افراد کے بارے ميں حکايات اور قصص بيان فرماتے تھے اور اس ميں کوئي غلط بات نہيں ہوتي تھي تو ثابت ہو جاتا تھا کہ وہ يہ حکايات وحي کے ذريعے بيان فرما رہے ہيں-
ثالثاً قصص قرآني کا ايک فلسفہ يہ بھي ہے کہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ جس طرح ديگر انبياء کرام کو مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اسي طرح آپ کو بھي کرنا پڑے گا-
9- علم استنباط معافي قرآن جيسے علم اصول اور علم الفقہ کے قواعد اور مسائل کو اس علم کے ماہرين نے قرآن سے استنباط کيا ہے-
10- علم ارشاد نصيحت مواعظ اور امثال يہ علوم قرآن کے وہ ظواہر ہيں جن تک بشري عول کي رسائي ہے ورنہ علوم قرآن بحر بيکراں اور لامحدود ہيں-
11- علم معافي سے مراد تراکيب کلام کے خواص سے آگاہي ہے اس علم کے سبب سے کلام کي تطبيق کے مرحلے پر خطا سے محفوظ رہتا ہے-
12- علم بيان اس سے مراد وہ علم ہے جس ميں متکلم ايک ہي مفہوم کو مختلف طريقوں سے آپنے سامع تک پہنچاتا ہے جس ميں بعض مفاہيم بڑے واضح وروشن اور بعض پوشيدہ ہوتے ہيں-
بدرا لدين زرکشي کي نظر ميں علوم قرآن کي اقسام زرکشي کہتے ہيں کہ متقدمين نے علوم القرآن پرکوئي کتاب نہيں لکھي تھي لہذا ميں نے خداوند تعاليٰ کي مدد اور استعانت سے ايک ايسي کتاب تحرير کي ہے جو تمام نکات اور فنونِ قرآن پر مشتمل ہے- يہ کتاب دلوں کو خوشي ديتي ہے اور عقلوں کو حيرت زدہ کرتي ہے مفسروں کے تفسيري کا م ميں مددگار ہے- اور انہيں کتاب آسماني کے اسرارو حقائق سے آگاہ کرتي ہے-
اہل البيت پورٹل
متعلقہ تحريريں:
قرآني معلومات (حصّہ دوّم)
حروف تھجي کي انداز اور ادا ئيگي
علم تجويد کي ضرورت
علم تجويد کي عظمت
علوم قرآن پر پہلي کتاب