کيا قرآن کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت ميں منحصر ہے؟
اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ قرآن مجيد کا اعجاز صرف فصاحت و بلاغت اور شيريں بياني سے مخصوص نہيں ہے (جيسا کہ بعض قديم مفسرين کا نظريہ ہے) بلکہ اس کے علاوہ ديني تعليمات ، اور ايسے علوم کے لحاظ سے جو اس زمانہ تک پہچانے نہيں گئے تھے، احکام و قوانين، گزشتہ امتوں کي تاريخ ہے کہ جس ميں کسي طرح کي غلط بياني اور خرافات نہيں ہے، اور اس ميں کسي طرح کا کوئي اختلاف اور تضاد نہيں ہے ، يہ تمام چيزيں اعجاز کا پہلو رکھتي ہيں-
بلکہ بعض مفسرين کا تو يہ بھي کہنا ہے کہ قرآن مجيد کے الفاظ اور کلمات کا مخصوص آہنگ اور لہجہ بھي اپني قسم ميں خود معجز نما ہے-
اور اس موضوع کے لئے مختلف شواہد بيان کئے ہيں، منجملہ ان ميں مشہور و معروف مفسر سيد قطب کے لئے پيش آنے والے واقعات ہيں، موصوف کہتے ہيں:
ہم دوسروں کے ساتھ پيش آنے والے واقعات کے بارے ميں گفتگو نہيں کرتے بلکہ صرف اس واقعہ کو بيان کرتا ہوں جو ميرے ساتھ پيش آيا، اور 6 / افراد اس واقعہ کے چشم ديد گواہ ہيں ( خود ميں اور پانچ دوسرے افراد )
ہم چھ مسلمان ايک مصري کشتي ميں” بحر اطلس” ميں نيويورک کي طرف سفر کر رہے تھے، کشتي ميں 120/ عورت مرد سوار تھے، اور ہم لوگوں کے علاوہ کوئي مسلمان نہيں تھا، جمعہ کے دن ہم لوگوں کے ذہن ميں يہ بات آئي کہ اس عظيم دريا ميں ہي کشتي پر نماز جمعہ ادا کي جائے، ہم چاہتے تھے کہ اپنے مذہبي فرائض کو انجام دينے کے علاوہ ايک اسلامي جذبہ کا اظہار کريں، کيونکہ کشتي ميں ايک عيسائي مبلغ بھي تھا جو اس سفر کے دوران عيسائيت کي تبليغ کررہا تھا يہاں تک کہ وہ ہميں بھي عيسائيت کي تبليغ کرنا چاہتا تھا!-
کشتي کا ”ناخدا ” ايک انگريز تھا جس نے ہم کو کشتي ميں نماز جماعت کي اجازت ديدي، اور کشتي کا تمام اسٹاف افريقي مسلمان تھا، ان کو بھي ہمارے ساتھ نماز جماعت پڑھنے کي اجازت ديدي ، اور وہ بھي اس بات سے بہت خوش ہوئے کيونکہ يہ پہلا موقع تھا کہ جب نماز جمعہ کشتي ميں ہو رہي تھي!
حقير (سيد قطب) نے نماز جمعہ کي امامت کي ، اور قابل توجہ بات يہ ہے کہ سبھي غير مسلم مسافر ہمارے چاروں طرف کھڑے ہوئے اس اسلامي فريضہ کے ادائيگي کو غور سے ديکھ رہے تھے-
نماز جمعہ تمام ہونے کے بعد بہت سے لوگ ہمارے پاس آئے اور اس کاميابي پر ہميں مبارک باد پيش کي، جن ميں ايک عورت بھي تھي جس کو ہم بعد ميں سمجھے کہ وہ عيسائي ہے اور يوگو سلاويہ کي رہنے والي ہے اور ٹيٹو اور کميونيزم کے جہنم سے بھاگي ہے!!
اس پر ہماري نماز کا بہت زيادہ اثر ہوايہاں تک کہ اس کي آنکھوں سے آنسو جاري تھے اور وہ خود پر قابو نہيں پارہي تھي-
وہ سادہ انگريزي ميں گفتگو کررہي تھي اور بہت ہي زيادہ متاثر تھي ايک خاص خضوع و خشوع ميں بول رہي تھي، چنانچہ اس نے سوال کيا کہ يہ بتاؤ کہ تمہارا پادري کس زبان ميں پڑھ رہا تھا، ( وہ سوچ رہي تھي کہ نماز پڑھانے والا پادري کوئي روحاني ہونا چاہئے، جيسا کہ خود عيسائيوں کے يہاں ہوتا ہے ، ليکن ہم نے اس کو سمجھايا کہ اس اسلامي عبادت کو کوئي بھي باايمان مسلمان انجام دے سکتا ہے) آخر کار ہم نے اس سے کہا کہ ہم عربي زبان ميں نماز پڑھ رہے تھے-
اس نے کہا: ميں اگر چہ ان الفاظ کے معني کو نہيں سمجھ رہي تھي، ليکن يہ بات واضح ہے کہ ان الفاظ کا ايک عجيب آہنگ اور لہجہ ہے اور سب سے زيادہ قا بل تو جہ بات مجھے يہ محسوس ہو ئي کہ تمہارے امام کے خطبوں کے درميان کچھ ايسے جملے تھے جو واقعاً دوسروں سے ممتاز تھے، وہ ايک غير معمولي اور عميق انداز کے محسوس ہو رہے تھے، جس سے ميرا بدن لرز رہاتھا، يقينا يہ کلمات کوئي دوسرے مطالب تھے، ميرا نظريہ يہ ہے کہ جس وقت تمہارا امام ان کلمات کو اداکرتا تھا تو اس وقت ”روح القدس” سے مملو ہوتا تھا!!
ہم نے کچھ غور و فکر کيا تو سمجھ گئے کہ يہ جملے وہي قرآني آيات تھے جو خطبوں کے درميان پڑھے گئے تھے واقعاً اس موضوع نے ہميں ہلاکر رکھ ديا اور اس نکتہ کي طرف متوجہ ہوئے کہ قرآن مجيد کا مخصوص لہجہ اتنا موثر ہے کہ اس نے اس عورت کو بھي متاثر کرديا جو ايک لفظ بھي نہيں سمجھ سکتي تھي ليکن پھر بھي اس پر بہت زيادہ اثر ہوا-
اہل البیت ڈاٹ او آڑ جی
متعلقہ تحريريں:
قرآن کريم کس طرح معجزہ ہے؟
قرآنِ کريم
قرآنِ کريم: جاوداں الٰہي معجزہ
ہميشہ باقي رہنے والا معجزہ
’’اعجاز قرآن ‘‘ پر سچے واقعات (حصّہ سوّم)