انگوٹھا چوسنا
بچے کى ایک عام عادت انگوٹھا چوسنا ہے عموماً بچے اپنے پیدائشے سے تین ماہ بعد انگوٹھا چوسنے لگتے ہیں او رکچھ عرصہ یہ سلسلہ جارى رکھتے ہیں اس کام کے فطرى عامل اور اصلى بنیاد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ بچہ اپنى عمر کے ابتدائی ایّام میں دودھ کے ذریعے سیراب ہوتا ہے اور دودھ چوس کرہى پیتا ہے اسے جب بھى بھوک لگتى ہے اور کچھ ناراحتى دور کرتا ہے اس مدّت میں اسے اسعمل کے تکرار سے یہ تجربہ ہوتا ہے کہ چوسنے کے ذریعے ناراحتى دور ہوتى ہے اور آرام سا ملتا ہے تدریجاً وہ چوسنے کا عادى ہوجاتا ہے اور استعمال سے کیف حاصل کرتا ہے ان ایّام میں جب کہ بچے کے معاشرتى احساسات کسى حدتک بیدار ہوچکے ہوتے ہیں اور وہ خارجى دنیا کى طرف بھى متوجہ ہوتا ہے، اس کى پورى کوشش یہ ہوتى ہے کہ اس لذت بخشعمل یعنى چوسنے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اس مقصد کے لیے بہترین اور آسان ترین چیز اس کے پاس انگوٹھا چوسنا ہى ہوتا ہے اس وجہ سے وہ اپنا انگوٹھا چوستا ہے اوررفتہ رفتہ اس کا عادى ہوجاتا ہے اور اسے جب بھى موقع ملے ہر طرح کى ناراحتى دور کرنے کے لئے اس لذت بخش مشغولیت سے استفادہ کرتا ہے بہت سے ماں باپ انگوٹھا چوسنے کو ایک برى عادت سمجھتے ہیں اور اس پر اپنى ناپسند کا اظہار کرتے ہیں اور ناراض ہوکر اس کا چارہ کارسوچتے ہیں یہاں پر اس امر کا ذکر ضرورى ہے کہ اگر چہ دانتوں کے بعض ڈاکٹر اس عادت کو نقصان دہ سمجھتے ہیں او ر یہ کہتے ہیں کہ انگوٹھا چوسنے سے دانتوں اور منہ کى طبیعى و فطرى حالت بگڑجاتى ہے لیکن ان کے مقابلے میں دانتوں کے بہت سے ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات نے اس امر کى وضاحت کى ہے کہ انگوٹھا چوسنے سے کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا
ایک ماہر لکھتے ہیں:
بہت سے معالجین نفسیات اور ماہرین نفسیات اور اسى طرح بچوں کے امور کے بہت سے ماہرین کا نظریہ ہے کہ اصولاً یہ عمل کوئی نقصان وہ عادت نہیں ہے اور بہت سے مقامات پر یہ عمل بچے کہ منہ میں کسى قسم کى تبدیلى کا باعث نہیں بنتا ان کا خاص طور پر یہ نظریہ ہے کہ یہ عادت جیسا کہ عموماً دیکھنے میں بھى آیا ہے مستقل دانت نکلنے پر ختم ہوجاتى ہے لہذا یہ بچے کے لیے کسى نقصان کا باعث نہیں بنتى لبتہ ممکن ہے کبھى یہ عادت بچے کى صحت و سلامتى کو نقصان پہنچائے کیوں کہ بچے کى انگلى عموماً گندى اور کثیف ہوتى ہے اور ایسى کثیف انگلى چوسنے سے اکثر نقصان کا امکان ہوتا ہے زیادہ تر ماں باپ اس عادت کو پسند نہیں کرتے اور شرم کا احساس کرتے ہیں بہر حال ظاہراً یہ موضوع کوئی خاص اہمیّت نہیں رکھتا اور بچہ جب چار پانچ سال کا ہوجاتا ہے تو خودبخود یا ماں باپ کے ذریعے یہ عادت ختم ہوجاتى ہے البتہ ماں باپ کو اگر یہ عادت پسند نہیں تو بہتر ہے کہ اس کے وقوع سے پہلے ہى اس کا علاج کریں کیونکہ کسى عادت کو پیدا ہونے سے روکنا ترک عادت کى نسبت بہت آسان ہے جب وہ دیکھیں کہ بچہ اپنى انگلى چوسنا چاہتا ہے تو اس کا سبب معلوم کرنے کى کوششکریں اگر وہ سیر نہیں ہواتواسے دودھ اور پلائیں اگر اسے جلد بھوک لگ جاتى ہو تو غذائی وقفے کے دوران میں اسے کوئی سادہ سى غذا مثلاً بسکٹ اور پھلوں کارس دے سکتے ہیں
اگر اس کى وجہ احساس تنہائی یا کوئی تکلیف ہے تو اس کى طرف زیادہ توجہ کرنا چاہیے اور اس سے اظہارت محبت کرین ایسى چیزیں ہوسکتا ہے اسعادت کى پیدائشے کا سبب ہوں اگر سبب دور کردیا جائے تو زیادہ امکان یہى ہے کہ بچے میں ایسى عادت پیدا نہیں ہوگى لیکن اگر عادت پیدا ہوگئی تو پھر اس کا علاج مشکل ہے اگر اسے کھیلنے کى مناسب چیزیں دے دى جائیں یا اسکے ساتھ کوئی کھیلنے والا مل جائے تو شاید تدریجاً یہ عادت ترک ہوجائے شاید اس کا بہترین علاج اسے چوسنى دے دینا ہو لیکن اسمیں خرابى یہ ہے کہ اسے چوسنى کى عادت پڑجائے گى اگر ایسے کاموں کے ذریعے سے اس عادت کو روک سکیں تو کیا ہى بہتر لیکن اگر کامیاب نہ ہوں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس پر سختى شروع کردى جائے مثلاً اس کے ہاتھ باندھ دیے جائیں ، اسے ماراجائے اس سے تلخى کى جائے ، اسے ڈانٹ ڈپٹ یا ملامت و سرزنشکى جائے کیوں کہ ایسے کام اسکے علاوہ کہ عموماً بے فائدہ ہوتے ہیں بچے کى روح اور نفسیات پر بھى برے اثرات مرّتب کرتے ہیں بہتر ہے کہ صبر کریں اور کسى مناسب موقع کا انتظار کریں زیادہ تر یہ عادت چار یا پانچ سال کى عمر میں خود، بخود ختم ہوجاتى ہے
بشکریہ : مکارم شیرازی ڈاٹ او آر جی
متعلقہ تحریریں:
تمام والدین کی آرزو ( حصّہ دوّم )
اسلامی تمدن میں تعلیم و تربیت کے مقامات
تمام والدین کی آرزو
سیرت معصومین علیھم السلام میں تعلیم و تربیت
خوش اور توانا والدین