بہتر ین روش کا تسلط
بہت کم افراد ایسے ہیں جو قوی ارادے اور ایمان کے مالک ہیں اور ہر قیمت پر قانون شریعت کے ملتزم رہتے ہیں، معاشرے کی فضا ان پر اثر انداز نہیں ہوتی ، اور ان کے مقابلے میں کچھ لوگ لاپرواہی کے شکار ہیں اور قانون و شریعت سے سرکشی ان کی عادت میں شامل ہے، اور ان دو قسم کے درمیان اکثر لوگ موجودہ حالات یا وضع کے تابع ہیں، ہمیشہ یہ کہتے ہیں : ہم کیا کریں سبھی اس طرح ہیں..یہ ہی سب کا طریقہ ہے..سب جگہ یہ ہی بیچا جاتا ہے..ہم بھی ان کی طرح مصیبت میں پھنس جائیں گے ۔
اس موقع پر ظاہر ہے، ہر معاشرے کے سربراہ ، مربی اور قانون گر افراد کا یہ فریضہ ہے کہ معاشرے میں اس طرح کا ماحول پیدا کریں کہ عام طور پر معاشرے کی فضا پہلے گروہ کی طرف رغبت اور میلان پیدا کر سکے، اور نتیجے میں قانون اور صحیح راستے کی فرماں بردار ہو جائے، اور دوسری قسم کے لوگ اپنے طریقے پر پر شرمندگی اور خفت محسوس کریں ۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ روش کی تشکیل دوسری قسم کے افراد ہی کیوں انجام دیتے ہیں، جبکہ قانون اور شریعت کے مدافع پہلی قسم کے افراد ہیں؟ کیوں ایک مسلمان عورت کی بیٹی دوسرے کے سامنے اپنی ماں کے پردہ کرنے پر شرمندگی محسوس کرتی ہے؟ کیوں معاشرے کے اکثر افراد بعض افراد کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں، اور رفتہ رفتہ بعض افراد کی گندگی اور کجروی ایک روش بن جاتی ہے؟ اقلیت کون سے حق کی بنیاد پر قانون اور شریعت کی مخالفت کرتی ہے؟
یہ بات مسلم ہے کہ معاشرے کی تمام روش اجراء کی ذمہ داری کے (چاہے حسب بط ہو یا حسب ضابط نہ ہو ) ساتھ بعض افراد کی غلط روش کے مقابلے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں ۔ اب جبکہ پردا اسلامی قوانین کی بنیاد پر ایک اسلامی قانون کی حیثیت رکھتا ہے، لہذا ایک بہترین روش کی حیثیت سے جانا جائے گا ۔ ”اور آج مسلمان عورت ایک نمونے کے طور پوری دنیا میں پہچانی جا چکی ہے۔ لہذا صاحبان فکر اور معاشرے کے دانشور افراد کو چاہیے کہ کام کرنے کے طریقے اور اس کے اجراء کی مثبت ضمانت ( صحیح راستے پر چلنے والوں کی جزاء) اور منفی ضمانت (اور منحرف افراد کی سزا ) کے بارے میں علمی طور پر اس کی تحقیق کرکے اس کو مرتب کریں، اور معاشرے کے ثقافتی اور قانونی امور کے ذمہ دار افراد کو چاہیے کہ ان امور کا خیال رکھیں اور خود کو اس کا ملتزم بنائیں ۔ غیر رسمی اجرائی ضمانت کی تریج معاشرے کے ثقافتی مراکز جیسے میڈیا، ٹیلی ویزن، یا اس کے ڈرامے، کلچرل سینٹر کے سپر کئے جائیں اور رسمی اجرائی ضمانت کی ترویج اخلاقی امنیت کی ذمہ دار پلس کے حوالے کی جاسکتی ہے ۔
ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے ، کہ پردے کو اگر ایک عقلی یا ایمانی امر تصور کیا جائے تو اس میں زبردستی یا جبر کا تصور نہیں کیا جا سکتا، اور اگر اس کو ایک قانون کی حیثیت سے دیکھا جائے تو زبردستی یا جبر کا پایا جانا قانون کے حوالے سے ہوگا، جس کے لازم یا ضروری ہونے میں کوئی شک نہیں پایا جاتا ۔
ختم شد.
تالیف :حجة الاسلام سید محمد جواد بنی سعید ۔
متعلقہ تحريريں :
عورت گھر کي اہم ہستي اور کنبے کا مہکتا پھول (حصّہ دوّم)
عورت گھر کی اہم ہستی اور کنبے کا مہکتا پھول
پردے کی ضرورت پر عقلی دلیل ( حصّہ دوّم )
پردے کی ضرورت پر عقلی دلیل
زبردستی پردہ کروانے کی وضاحت ( حصّہ چہارم )