• صارفین کی تعداد :
  • 1205
  • 5/17/2011
  • تاريخ :

پيار کا پہلا شہر

پيرس

پيرس کا شمار يورپ کے قديم ترين شہروں میں ہوتا ہے۔ ازمنہ قديم ميں ميں جب يہ علاقہ چند دلدلوں اور جزيروں پر مشتمل تھا سيلٹ نسل کے لوگ يہاں آباد ہوئے۔ پيرس کا اولين حوالہ جو ليس سيزر کي ايک کتاب میں ملتا ہے وہ لکھتا ہے کہ يہاں پر پارسي نامي قبيلہ آباد تھا۔

جس کے نام پر بعد میں اس نو آباد قصبے کو پيرس کہا جانے لگا۔ دور آيا جو خليفہ ہارون الرشيد کا ہم عصر تھا اور جو اندلس فتح کرنے کے سوق ميں کوہ پيرانيز کے اس پار جا کر مسلمانوں کے ہاتھوں اپني فوج کي گت بنوا کر ٹھنڈا ٹھنڈا واپس آ گيا۔ اس کے بعد کي تاري گڈ مڈ ہو جاتي ہے۔ لوئي اور فلپ نام کے درجنوں بادشاہ آئے جس کا سيريل نمبر ہميشہ ذہن سے اتر جاتا ہے۔ آخر ميں عظيم نپولين کا دور ہوا۔ اس کے بعد چراغوں ميں روشني نہ رہي۔ سنان دسري صبح دير تک سوتا رہا۔ اس کے ذہن ميں آج کے لئے کوئي واضح پروگرام موجود نہ تھا۔ اس کا خيال تھا کہ تمام اس تاريخي شہر کے گلي کوچوں ميں بے مقصد گھومتے ہوئے گزار دے اور شام کو دريائے سين کے کنارے پاسکل کي تلاش کرے، پاني کے نل ميں آج پاني بھي موجود تھا۔ ميڈم زي نے حسب وعدہ نيچے سے پاني کي منقطع سپلائي بحال کر دي تھي۔ شيو بنانے اور کپڑے بدلنے سے فارغ ہو کر سنان دروازے کے پاس رکا۔ اندر بالکل خاموشي تھي۔ اور پھر سيڑھيوں سے نيچے اترگيا۔ ہال می ميڈم زي يا اس کي بوڑھي ماں ميں سے کوئي بھي موجود نہ تھا البتہ وہ گنجا طوطا مزے سے پنجرے ميں بيٹھا آنکھيں جھپکا رہا تھا اور حسب سابق سنان کو ديکھنے ہي ٹين ٹين کرنے لگا۔ سنان نے چوروں کي طرح ادھر ادھر ديکھا اور پھر چپکے سے پنجرے کا دروازہ گھول کر طوطے کے گنجے سر پر ايک دھپ لگا دي طوطے نے ايک لمبي ٹين کي اور پھر خاموش ہو گيا۔ سنان اپنے اس کارنامے پر بيحد مسرور ہوا اور ہاتھ ملتا ہوا مکان سے باہر نکل آيا۔ وہ خاصي دير يوں ہي بے مقصد گھومتا رہا۔ ايک گليميں اس کي نظر اس قہوہ خانہ پر پڑي جہاں اس کي ملاقات طوطے والي بڑي اماں کے ساتھ ہوئي تھي۔

آج شام يہاں آکر کافي پي جائے گي، سنان نے اپنے آپ سے کہا اور آگے بڑھ گيا۔ پاسکل سے نہ ملنے کا غم پيرس کي حسين اور چمکتي ہوئي صبح نے قدرے ماند کر ديا تھا اور وہ ايک تجربہ کار سياح کي مانند ہر شے، ہر عمارت اور شہر کے مکينوں کو بہ نظر غور ديکھتا چلا جا رہا تھا ۔ سہر کا يہ حصہ خاصا پسماندہ دکھائي ديتا ہے اکثر بالکونيوں کي حالت مخدوش ہے۔ چند مکان گرنے کو ہيں۔ گلياں کھر درے پتھروں کي ہيں جانے وہ صوبيدار دلنواز نے شيشے کي سڑکيں کہاں ديکھي تھيں؟

لوگ انگريزوں کي نسبت قدرے فربہ، چھوٹے قد کے اور سياہ بالوں والے ہيں۔ اتنے صاف ستھرے بھي نہيں البتہ انگريزوں کے مقابلے ميں زندگي سے بيزار دکھائي نہیں ديتے بلکہ ضرورت سے زيادہ مسرور ہیں۔ وہ يونہي تانکتا جھانکتا سيکرے کر کے کليسا تک آگيا جس کے خوبصورت گنبد اس کے کمرے سے دکھائي ديتے تھے۔ وہ صدر دروازے سے اندر داخل ہو گيا۔

کليسا بيحد تاريک اور خشک تھا ۔ سامنے حضرت عيسي عليہ السلام اور حضرت مريم عليہ السلام کے درجنوں مجسموں کے نيچے سينکڑوں لامبي اور نازک موم بتياں جھلملا رہي تھيں۔ چند لوگ جن ميں اکثريت بوڑھي عورتوں کي تھي لکڑي کے سخت پٹچوں پر گھٹنے ٹيکے عبادت ميں مصروف تھے۔ سنان کو خيال آيا کہ اگر اس عمارت ميں روشني کا انتظام قدرے بہتر ہو جائے تو طرز تعمير کي باريکياں اجاگر ہو سکتي تھيں۔ سنان بھي سستانے کي خاطر ايک بنچ پر بيٹھ کر يونہي جلتي ہوئي موم بتيوں کو گھورتا رہا۔ اس سے کچھ دور سياہ لباس میں ملبوس ايک بوڑھي عورت عباد کر رہي تھي عورت سنان کو ديکھ کر مسکرا دي۔ يہ طوطے والي بڑي اماں تھيں۔ سنان کو خفت سي محسوس ہونے لگي۔ وہ اس بڑي اماں کے چہيتے طوطے کو چپت لگا کر آيا تھا۔ وہ جوابا مسکرا ديا اور پھر بنچ سے اٹھ کر جلدي سے باہر آگيا۔ باہر کي تيز دھوپ نے اس کي آنکھيں چندھياں ديں۔

کليسا کے عين سامنے چوڑي اور خوبصورت سيڑھياں نيچے بازار تک اترتي تھيں۔ ان سيڑھيوں پر بيحد رونق تھي۔فرانسيسي بوڑھے جو پائپ منہ ميں اڑ سے اخبار پڑھنےميں مگن تھے يا دھوپ ميں اونگھ رہے تھے۔ بوڑھي عورتيں ، بے شمار نھنےمنے بچے، کچھ بچہ گاڑيوں ميں کلبلاتے ہوئے اور ان سے عمر ميں بڑے سيڑھيوں کے ساتھ باغيچے میں کيڑي کاڑا قسم کا کوئي کھيل کھيلتے ہوئے۔ سنان نے وہاں ناجوان لڑکے اور لڑکيون کي کمي بري طرح محسوس کي پھر اسے ياد آيا کہ پيرس کے باشندے کي اکثريت موسم گرما ميں ساحلي مقامات کي جانب کوچ کر جاتي ہے اور بقول ايک گائيڈ بک کے وہاں صرف نکمے آوارہ گرد، فلاش مصور، غير ملکي سياح اور آوارہ کتے ہي رہ جاتے ہيں۔ يہاں پر کتے تو نظر نہيں آ رہے تھے البتہ مصوروں کي بہتات تھي جو ايزل سامنے رکھے ارد گرد کے شور سے لاتعلق سيکرے کر کے خوبصورت گبندوں کو کينوس پر منتقل کر رہے تھے۔ سنان بھي وہيں سيڑھيوں پر بيٹھ گيا اور پيرس کي زندگي کے ان دلچسپ پہلوئوں سے لطف اندوز ہونے لگا۔

ابھي وہ وہاں کچھ ہي دير بيٹھا ہوگا کہ ايک نوجوان مصور اس کے پاس آ کھڑا ہوا مصور کے گلے ميں مختلف قسم کي درجنوں مالائيں تسبيہيں اور مندروں ميں بجائي جانے والي ايک بڑي گھنٹي لٹک رہي تھي۔مصور نے گھنٹي اٹھا کر سنان کے کان کے پاس لے جر کر زور زور سے بجائي اور مسکرانے لگا۔

صبح خير سنان بھي مسکرا ديا۔ مصور اس کے ساتھ ہي سيڑھيوں پر برا جمان ہو گيا اور بغل ميں دابي ہوئي متعدد تصويروں ميں سے ايک نکال کر سنان کے گھٹنوں پر پھيلا دي۔ سنان تصوير کو ديکھ کر بيحد حيران ہوا۔ يہ اس کي اپني ہي لگ رہي تھي۔آپ نے شايد ديکھا نہيں۔ميں پچھلے دس منٹ سے آپ کي تصوير کشي ميں مصروف تھا ۔مصور نے نہايت ادب سے کہا۔ خوب ہے سنان نے کہا، تصوير واقعي عمدہ بني تھي۔ ميري طرف سے يہ بطور تحفہ قبول فرمائيے۔ مصور نے کھڑے ہو کر جھک کر کہا اور گلے ميں بندھي گھنٹي ہلا دي ۔ ٹن ٹناٹن۔ سنان اس بے جا خلوص کے مظاہرے سے بيحد متاثر ہوا۔ نہيں نہيں يہ کيسے ہو سکتا ہے ۔ بہر حال آپ کا شکريھ ۔ شکيرے کي کوئي بات نہيں ۔ آپ کے مشرقي خدو خال اتنے دلفريب ہيں کہ ميرے اندر تخليقي جذبات کا ايک سمندر ابل پڑا اور مجھے آپ کي تصوير بناتے ہي بني۔

سنان سيدھا ہو کر بيٹھ گيا گويا وہ واقعي خوش شکل تھا۔ اس نے مصورکا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا اور تصوير قبول کر لي۔ اسے تو ہميشہ سے ہي تخليقي جذبات کي سر پرستي کا خيال رہتا تھا۔ ميں بيحد ممنون ہوں سنان اس کے احسان تلے دبا جا رہا تھا۔ مصور نے جوابا صرف گھنٹي بجا دينے پر اکتفا کيا۔ ٹن ٹنا ٹن اور وہيں کھڑا رہا۔ سنان کچھ عرصہ تو اس کي طرف ديکھ ديکھ کر مسکرا تا رہا مگر جب اس کے جبڑے دکھنے شروع ہو گئے تو وہ سنجيدہ ہو گيا ۔ آخر يہ مصور يہاں سے جاتا کيوں نہيں? ميں نے کہا کہ ميں بيحد ممنون ہوں ۔ سنان نے ايک مرتبہ پھر مسکرانے کي کوشش کي۔ مصور نے بھي ايک مرتبہ پھر وہيں کھڑے کھڑے گلے ميں بندھي گھنٹي بجا دي ۔ ٹن ٹناٹن۔ سنا جھلا گيا ۔آخر يہ حضرت چاہتے کيا ہیں? اس نے اپني تصوير سيڑھيوں پر رکھ دي اور جيب سے سگريٹ کا پيکٹ نکالا۔ بہترين طريقہ يہي ہے کہ اسے نظر انداز کيا جائے خود بخود چلا جائے گا ۔ سنان پيکت ميں سے سگريٹ نکالنے لگا تو مصور نے جھک کر اپني مدد آپ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ايک سگريٹ اٹھا ليا۔ سنان خون کے گھونٹ پي کے رہ گيا۔ اپنا سگريٹ سلگانے لگا تو مصور نے بھي منہ ميں دابا ہوا سگريٹ آگے کر ديا ۔ سنان کو طوعا کرہا سلگانا پڑا۔ سگريٹ سلگا کر مصور پھر کھڑا ہو گيا اور گلے ميں لتکتي ہوئي گھنٹي بجا دي۔ ٹن ٹنا ٹن آخر تم چاہتے کيا ہو? سنان نے تنگ آکر پوچھا۔ بيس فرانک ۔ بيس فرانک وہ کس بات کے? تين فرانک کا کينوس اور ايک فرانک کے رنگ تصوير کشي ميں صرف ہوئے اور سولہ فرانک ميري اجرت ۔ سنان ميں تخليقي جذبے کي سر پرستي کے ارفع اعلي جذبات فورا سرد پڑ گئے۔ ٹن ٹنا ٹن مصور نے پھر گھنٹي بجائي اور کہنا شروع کيا ، بيس فرانک کچھ يادہ نہيں، ہو سکتا ہے آج سے چند سو برس بعد ميں ايک بہت بڑے مصور کي حيثيت سے پہچان ليا جائوں اور يہي تصوير آپ بيس ہزار فرانک ميں فروخت کر دين۔چند برسوں بعد ميں فروخت کر سکوں ۔۔ سنان نے ميں پر زور ديتے ہوئے حيرت سے پوچھا ۔ چلئے آپ کي اولاد ہي سہي۔ اب لائيے نا بيس فرانک مجھے کسي اور سياح کي تصوير بھي بناني ہے۔ سودا پندرہ ميں طے پا گيا اور سنا قيمت ادا کر کے فورا ہي اٹھ کھڑا ہوا مبادا کسي اور مصور کے دل ميں اس کے مشرقي خد و خال ديکھ کر تخليقي جذبات کا سمندر ابل پڑے۔

کليسا کے پاس ہي ٹرام اسٹيشن بھي تھا۔ سنان اپني پندرہ فرانک کي تصوير بغل ميں دابے وہيں سے ايک ٹرام ميں سوار ہو کر شہر کے مرکز ميں اتر گيا جہان سے نپولين کي تعمير کردہ فتح کي محراب کھڑي تھي۔ محراب کے چاروں طرف نپولين کي مختلف جنگوں کے واقعات سنگ مرمر کے خوشنما مجسموں کي صورت ميں ابھرے ہوئے تھے۔ اس محراب ميں سے بارہ خوبصورت سڑکين نکل کر پيرس کے سينے پر حيات آفرين ششريانوں کي طرح پھيل گئي ہيں۔ انہي ميں سے ايک مشہور زمانہ شانزے ليزے ہے جسے فرانسيسي دنيا کي خوبصورت ترين سڑک کا خطاب ديتے تھے۔ سنان اس ميں تھوڑا سا ردو بدل کرنا چاھتا تھا ۔ شائز ے ليزے يقينا دنياں کي دوسري خوبصورت ترين سڑک کہلانے کي مستحق تھي ۔ لاہور کي مال روڈ کو اس پر فوقيت حاصل تھي۔

جاری ہے

تحریر: مستنصر حسين تارڑ


متعلقہ تحریریں :

صوبہ سرحد میں بچوں کا ادب (پانچواں حصّہ)

صوبہ سرحد میں بچوں کا ادب (چوتها حصّہ)

گنڈاسا (حصّہ سوّم)

صوبہ سرحد میں بچوں کا ادب (تیسرا حصّہ)

صوبہ سرحد میں بچوں کا ادب (دوسرا حصّہ)