صوبہ سرحد میں بچوں کا ادب (دوسرا حصّہ)
ملک کے دیگر حصوں کی طرح صوبہ سرحد میں بھی بچوں کا ادب تخلیق کرنے کی روایت موجود ہے۔ لیکن یہ قدرے کمزور اس لئے ہے کہ ہمارے ہاں پہلے پہل بچوں کی تربیت و غیرہ کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ بچوں کو اخلاق سکھانے اور ان میں علمی بیداری پیدا کرنے کیلئے انہیں مسجد بھیج کر مولوی صاحب کے سپرد کردیا جاتا تھا۔ بعض اوقات مولوی صاحب تعلیم کے تیزاب میں اس کی خودی ڈالے بغیر اور اسے ملائم کیے بغیر جدھر چاہتا اسے گھما دیتا تھا۔ جس سے بعض اوقات بچے سدھارنے کی بجائے بگڑ بھی جاتے تھے۔ لیکن زیادہ تر بچے اسی تادیب و ترغیب سے صحیح رستے پر اپنی منزل کی طرف رواں ہو جاتے اور اعلٰی اخلاقی و کرداری اوصاف کے مالک بن کر مفید شہری بن جاتے۔
رئیس احمد مغل کے مطابق جہاں سے ہمیں یقینی طور پر وہ مواد ملتا ہے جو بچوں کے ادب میں آتا ہے اور اس کی تخلیق اس سرزمین پر ہوئی وہ لوک ادب میں شامل لوریاں اور گیت ہیں۔ یہ لوریاں جو پشتو زبان میں ہیں ان میں بچوں کو بہادری، جرات، ایمان اور اسلام کے بارے میں باتیں سکھائی گئیں ہیں۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سب لوریاں تاریخ کے اس روشن دور میں تخلیق ہوگئ ہوں گی جب یہ خطہ اسلامی دنیا کا حصہ بن گیا تھا۔ ان گیتوں اور لوریوں کا ذکر پشتو زبان کے معروف محقق اور دانشور ڈاکٹر نواز طائر نے کیا ہے۔
سرحد میں ابتدا میں بچوں کے تخلیقی ادب بلکہ تحریری ادب بہت بعد میں شروع ہوا اس کی دو وجوہات بہت اہم ہیں۔ پہلی یہ کہ یہاں تعلیم کی کمی ہے۔ بچوں کے لئے ادب وہاں تحریر ہوتا ہے جہاں اس کے پڑھنے والے موجود ہوں جہاں پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ نہ ہو وہاں کس کے لئے ادب لکھا جائے۔ دوسری اہم وجہ وسائل کی کمی ہے۔ یہاں کے غریب والدین چاہتے ہوئے بھی بچوں کے لئے کتابیں خریدنے سے قاصر ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے پروگرام، رسائل، اخبارات اور ادبی تنظیموں کے فقدان کی وجہ سے اس کی طرف زیادہ توجہ نہ دی جاسکی۔ لیکن ان نامساعد حالات کے باوجود بھی یہاں کسی نہ کسی شکل میں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کا ادب بھی تخلیق ہوتا رہا۔
۱۹۳۵ء میں پشاور میں ریڈیو اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا۔ یہاں بچوں کے لئے پروگرام لکھنے والوں میں پروفیسر آل احمد کا نام اولیت رکھتا ہے۔ بعد میں اس ادارے نے بچوں کے ادب کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صوبہ سرحد میں بچوں کے ادب کو ابتدا میں کسی نے باقاعدہ توجہ نہیں دی۔ بچوں کے لئے لکھنا ویسے بھی اگر زیادہ مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں یعنی: دشعوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں" کے مصداق اس طرف ادبیوں نے زیادہ رغبت نہیں دکھائی۔
صوبہ سرحد میں بچوں کے لئے جن حضرات نے قلم اٹھایا اور ان کے نفسیات و خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ان کے لیے لکھا۔ ان میں رضا ہمدانی، خاطر غزنوی اور محسن احسان و غیرہ کے اسمائے گرامی بہت اہم ہیں۔ رضا ہمدانی نے بڑوں کے لئے بھی لکھا اور بچوں کے لئے بھی، خواتین کے لئے بھی لکھا اور خوانین کے لئے بھی۔ ان کی تحریریں ہر طبقہ فکر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ انہوں نے پچاس کی دہائی میں بچوں کی دلچسپی کے لئے کہانیوں کے علاوہ نظمیں بھی لکھیں۔ انہوں نے بچوں کی زندگی کا نہایت قریب سے مشاہدہ کیا۔ وہ گلی کے بچوں میں گھل مل جاتے اور مختلف مدارج طے کرنے والے طفلان کا جائزہ لیتے۔ رضا کی بچوں کے لئے لکھی گئی کہانیاں کتابچوں کی صورت میں "کہانیاں ہی کہانیاں" میں منظر عام پر آئیں۔ پھر یہی کہانیاں ترمیم و اضافوں کے ساتھ "بچوں کی کہانیاں" لوک ورثے کے قومی ادارے سے دسمبر ۱۹۷۹ء میں شائع ہوئیں۔ یہ ساری کہانیاں بچوں کے ذہنی استعداد کے مطابق ہیں۔ اس میں تفریح بھی ہے اور اصلاح کا پہلو بھی جس سے بچوں کو اپنی تہذیب، ثقافت، رسومات اور مذہب سے واقف کرانے میں مدد ملتی ہے۔
رضا ہمدانی کے بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں میں "جگنو میاں کی کہانی" ایک سبق آموز کہانی ہے اور باتوں باتوں میں انہوں نے کہانی کار نے اپنا نقطہ نظر بہت اچھی طرح سے واضح کیا ہے۔ اسی طرح طوطا مینا کی کہانی اور فاختہ کی کہانی میں بھی بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا خیال رکھا ہے اور ان کی لامتناہی دلچسپیوں کو بھی مدِ نظر رکھا ہے۔ انہوں نے مافوق الفطرت واقعات کا سہارا بھی لیا ہے۔ مثلاً ایک کہانی میں لکھتے ہیں:
"کہتے ہیں ایک گاوں میں دو جوئیں رہتی تھیں۔ ایک جوں موٹی تھی اور دوسری پتلی۔ دونوں کے گھر بھی ساتھ ساتھ تھے۔ ان کا آپس میں بڑا گہرا بہناپا بھی تھا۔ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا وغیرہ۔ جب وہ اپنے گھر کے کام سے فارغ ہوتیں تو آپس میں ادھر ادھر کی گپیں ہانکتیں، ہنستی کھیلتیں"۔
نثری کہانیوں کے علاوہ رضا ہمدانی نے بچوں کے لئے ہلکے پھلکے اندز میں نظمیں بھی لکھیں۔ ان نظموں میں تاروں بھری رات، پاکستانی نونہال اور کئی دوسری قابل ذکر نظمیں شامل ہیں۔ ان نظموں میں انہوں نے بچوں میں قومی درد و حب الوطنی کے ساتھ ایک دوسرے سے ہمدردی و محبت کا احساس جگانے کی کوشش کی ہے۔
خاطر غزنوی نے بچوں کے لئے منظوم کتابیں لکھیں۔ جن میں منظوم کہانیاں، تدریسی نظمیں اور پہیلیاں شامل ہیں۔ اسی طرح محسن احسان کی کتاب بھی بچوں کے لئے ایک انمول تحفہ ہے۔ جس میں انہوں نے شاعرانہ انداز میں باتوں باتوں میں بچوں کو کئی اخلاقی اور کارآمد باتیں سکھائی ہیں۔
ان شاعروں کے علاوہ احسان طالب نے نثر کی طرف توجہ دی اور اطفال کے لئے ایک ناولٹ تحریر کیا۔ جس کا نام انہوں نے "شیر بچہ" رکھا جو اپنی پیش کش کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح ایم یاسین آرزو کی بچوں کے لئے لکھی ہوئی نظمیں ملک بھر کے جرائد میں شائع ہوتی ہیں، جنہیں بچے بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ کلیم خارجی نے بھی ایک زمانے میں بچوں کے لئے ادب تخلیق کیا۔ انہوں نے حکمت و فلسفہ سے بھری ہوئی کہانیاں لکھ کر بچوں میں سوچنے کا مادہ اُبھارا۔ ان کی کہانیوں میں خالی کشتی، فاختہ لوٹ آئے گی، آزادی کی قمیت اور ایک اور موت کو اہمیت حاصل ہے۔
ڈاکٹر اعجاز راہی نے بچوں کے مسائل پر قلم اٹھایا۔ ستر کی دھائی میں ان کی بچوں کے لیے لکھی گئی تخلیقات کراچی کے روزنامہ جنگ کے بچوں کے صفحات میں شائع ہوتی رہیں۔
ان تحاریر سے بچوں کے جذبات و احساسات کی بھر پور ترجمانی ہوتی ہے۔ منور روف نے بڑوں کے لیے افسانہ نگاری کے علاوہ بچوں کے لیے لکھا۔ ان کی بچوں کے لیے لکھی گئی تحریرں "اخلاقی کہانیاں" کے نام سے شائع ہوتی رہی۔ یہ کہانیاں بچوں کے اعلٰی ذوق کی ترجمانی کرتی ہیں۔
گوہر رحمان نوید
متعلقہ تحریریں :
بانگ درا کے حصّہ دوم کی غزل نمبر (6)
بانگ درا کے حصّہ دوم کی غزل نمبر (5)
بانگ درا کے حصّہ دوم کی غزل نمبر (4)
بانگ درا کے حصّہ دوم کی غزل نمبر (3)
بانگ درا کے حصّہ دوم کی غزل نمبر (2)