انجام بخیر (حصّہ سوّم)
پطرس۔۔ آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک ہی کرسی ہے لیکن جاہ وحشمت کا خیال بہت پوچ خیال ہے۔ علم بڑی نعمت ہے۔ لہذا اے محترم اجنبی اس انبار میں سے چند ضخیم کتابیں انتخاب کرلو اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر چن کر ان پر بیٹھ جاؤ۔ علم ہی لوگوں کا اوڑھنا بچھونا اور علم ہی ہم لوگوں کا بچھونا ہونا چاہیئے۔
اجنبی۔۔ اے برگزیدہ شخص میں تیرے سامنے کھڑے رہنے ہی میں اپنی سعادت سمجھتا ہوں۔
پطرس۔۔ تمہیں کون سے علم کی تشنگی میرے دروازے تک کشاں کشاں لے آئی؟
اجنبی۔۔ اے ذی علم محترم! گو تم میری صورت سے واقف نہیں لیکن میں شعبہ تعلیم کا افسر اعلیٰ ہوں اور شرمندہ ہوں کہ میں آج تک کبھی نیاز حاصل کرنے کے ليے حاضر نہ ہوا۔ میری اس کوتاہی اور غفلت کو اپنے علم وفضل کے صدقے معاف کردو۔
(آبدیدہ ہوجاتا ہے)۔
پطرس۔۔ اے خدا کیا یہ سب وہم ہے کیا میری آنکھیں دھوکا کھا رہی ہیں!
اجنبی۔۔ مجھے تعجب نہیں کہ تم میرے آنے کو وہم سمجھو کیونکہ آج تک ہم نے تم جیسے نیک اور برگزیدہ انسان سے اس قدر غفلت برتی کہ مجھے خود اچنبھا معلوم ہوتا ہے لیکن مجھ پر یقین کرو میں فی الحقیقت یہاں تمہاری خدمت میں کھڑا ہوں اور تمہاری آنکھیں تمہیں ہرگز دھوکہ نہیں دے رہیں۔ اے شریف اور غم زدہ انسان یقین نہ ہو تو میرے چٹکی لے کر میرا امتحان لے لو۔
(پطرس اجنبی کے چٹکی لیتا ہے۔ اجنبی بہت زور سے چیختا ہے)۔
پطرس۔۔ ہاں مجھے اب کچھ کچھ یقین آگیا ہے لیکن حضور والا آپ کا یہاں قدم رنجہ فرمانا میرے ليے اس قدر باعث فخر ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں دیوانہ نہ ہو جاؤں۔
اجنبی۔۔ ایسے الفاظ کہہ کر مجھے کانٹوں میں نہ گھسیٹو اور یقین جانو کہ میں اپنی گزشتہ خطاؤں پر بہت نادم ہوں۔
پطرس۔۔ (مہبوت ہو کر) مجھے اب کیا حکم ہے؟
اجنبی۔۔ میری اتنی مجال کہاں کہ میں آپ کو حکم دوں البتہ ایک عرض ہے اگر آپ منظور کرلیں تو میں اپنےآپ کو دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھوں۔
پطرس۔۔ آپ فرمائیے میں سن رہا ہوں گو مجھے یقین نہیں کہ یہ عالم بیداری ہے۔
اجنبی تالی بجاتا ہے چھ خدام بڑے بڑے صندوق اٹھا کر اندر داخل ہوتے ہیں اور زمین پر رکھ کر بڑے ادب سے کورنش بجالا کر باہر چلے جاتے ہیں۔
(صندوقوں کے ڈھکنے کھول کر) میں بادشاہ معظم۔۔ شاہزادہ ویلز، وائسرائے ہند اور کمانڈرانچیف ان چاروں کی ایما پر یہ تحائف آپ کی خدمت میں آپ کے علم وفضل کی قدردانی کے طور پر لے کر حاضر ہوا ہوں (بھرائی ہوئی آواز سے) ان کو قبول کیجئے اور مجھے مایوس واپس نہ بھیجئے ورنہ ان سب کا دل ٹوٹ جائے گا۔
پطرس۔۔ (صندوق کو دیکھ کر) سونا! اشرفیاں! جواہرات! مجھے یقین نہیں آتا (آیت الکرسی پڑھنے لگتا ہے)۔
اجنبی۔۔ ان کو قبول کیجئے اور مجھے مایوس واپس نہ بھیجئے۔ (آنسو ٹپ ٹپ کرتے ہیں)۔
(گانا۔ آج موری انکھیاں پل نہ لاگیں)۔
پطرس۔۔ اے اجنبی! تیرے آنسو کیوں گر رہے ہیں اور تو کیوں گا رہا ہے؟ معلوم ہوتا ہے تجھے اپنے جذبات پر قابو نہیں۔ یہ کمزوری کی نشانی ہے۔ خدا تجھے تقویت اور ہمت دے۔ میں خوش ہوں کہ تو اور تیرے آقا علم سے اس قدر محبت رکھتے ہیں۔ بس اب جا کہ ہمارے مطالعے کا وقت ہے۔ کل کالج میں اپنے لیکچروں سے ہمیں چارپانسو روحوں کو خواب جہالت سے جگانا ہے۔
اجنبی۔۔ (سسکیاں بھرتے ہوئے) مجھے اجازت ہو تو میں بھی حاضر ہو کر آپ کے خیالات سے مستفید ہوں۔
پطرس۔۔ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو اور تمہارے علم کی پیاس اور بھی بڑھتی رہے۔
(اجنبی رخصت ہوجاتا ہے۔ پطرس صندوقوں کو کھوئی ہوئی نظروں سے دیکھتا رہتا ہے اور پھر ایک یک لخت مسرت کی ایک چیخ مار کر گر پڑتا ہے اور مر جاتا ہے۔ کمرے میں ایک پراسرار نور چھا جاتا ہے۔ اور فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ باہر بینڈ بدستور بج رہا ہے)۔
تحریر : پطرس بخاری
کتاب کا نام : پطرس کے مضامین
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
پڑھنے یا لیٹنے
بچت
روپ
شوہر بیگم
ریل