""روح خدا"" سے كيا مراد ہے؟
تقريباً تمام مشہور مفسرين نے يہاں پر روح كى خداوند متعال كے بزرگ فرشتے جبرئيل (ع) سے تفسير كى ہے اور اسے روح سے تعبير كرنے كى وجہ يہ ہے كہ وہ روحانى ہے_ وہ ايك ايسا وجود ہے جو حيات بخش ہے_ چونكہ وہ انبياء و مرسلين كے پاس خداوند متعال كى رسالت كا پہنچانے والا ہے لہذا تمام لائق انسانوں كے لئے حيات بخش ہے اور يہاں پر روح كى خدا كى طرف اضافت اس روح كى عظمت و شرافت كى دليل ہے_كيونكہ اضافت كى ايك قسم اضافت تشريفيہ ہے_
مريم عليہا السلام سخت طوفانوں كے تھپيڑوں ميں
""سر انجام مريم عليہا السلام حاملہ ہوگئي اور اس موعود بچے نے اس كے رحم ميں جگہ پائي_
اس بارے ميں كہ يہ بچہ كس طرح وجود ميں آيا، كيا جبرئيل (ع) نے مريم عليہا السلام كے پيراہن ميں پھونكا يا ان كے منہ ميں، قرآن مجيد ميں اس كے متعلق كوئي بات نہيں ہے كيونكہ اس كى ضرورت نہيں تھي_اگر چہ مفسرين كے اس بارے ميں مختلف اقوال ہيں_
بہر حال"" اس امر كے سبب وہ بيت المقدس سے كسى دور دراز مقام پر چلى گئي""_
وہ اس حالت ميں ايك اميد و بيم كے درميان پريشانى و خوشى كى ملى جلى كيفيت كے ساتھ وقت گزار رہى تھي،كبھى وہ یہ خيال كرتى كہ آخر كار يہ حمل ظاہر ہوئے گا، مانا كہ چند يا چند مہينے ان لوگوں سے دور رہ لوں گى اور اس مقام پر ايك اجنبى كى طرح زندگى بسر كرلوں گى مگر آخر كار كيا ہوگا، كون ميرى بات قبول كرے گا كہ ايك عورت بغير شوہر كے حاملہ ہوگئي_ سوائے اس كے كہ اس كا دامن آلودہ ہو،ميں اس اتہام كے مقابلہ ميں كيا كروں گي_ واقعاً وہ لڑكى جو سالہا سال سے پاكيزگى و عفت اور تقوى و پرہيزگارى كى علامت تھى _
اور خدا كى عبادت و بندگى ميں نمونہ تھي، جس كے بچپن ميں كفالت كرنے پر بنى اسرائيل كے زاہد و عابد فخر كرتے تھے_ اور جس نے ايك عظيم پيغمبر كے زير نظر پرورش پائي تھي، خلاصہ يہ ہے كہ جس كے اخلاق كى دھوم اور پاكيزگى كى شہرت ہر جگہ پہنچى ہوئي تھى اس كے لئے يہ بات بہت ہى درد ناك تھى كہ ايك دن وہ يہ محسوس كرے كہ اس كا يہ سب معنوى سرمايہ خطرے ميں پڑگيا ہے، اور وہ ايك ايسى تہمت كے گرداب ميں پھنس گئي ہے كہ جو بدترين تہمت شمار ہوتى ہے_ اور يہ تيسرا لرزہ تھا كہ جو اس كے جسم پر طارى ہوا_
ليكن دوسرى طرف وہ يہ محسوس كرتى تھى كہ يہ فرزند خداوند تعالى كا موعود پيغمبر ہے_ يہ ايك عظيم آسمانى تحفہ ہوگا، وہ خدا كہ جس نے مجھے ايسے فرزند كى بشارت دى ہے اور ايسے معجزانہ طريقے سے اسے پيدا كيا ہے مجھے اكيلا كيسے چھوڑے گا؟ كيا يہ ہوسكتا ہے كہ وہ اس قسم كے اتہام كے مقابلہ ميں ميرا دفاع نہ كرے؟ ميں نے تو اس كے لطف وكرم كو ہميشہ آزمايا ہے اور اس كا دست رحمت ہميشہ اپنے سر پر ديكھا ہے_
اس بات پر كہ مريم عليہا السلام كى مدت حمل كس قدر تھي،مفسرين كے درميان اختلاف ہے،اگرچہ قرآن ميں سربستہ طور پر بيان ہوا ہے (پھر بھي) بعض نے اسے ايك گھنٹہ، بعض نے نو گھنٹے بعض نے چھ ماہ بعض نے سات ماہ بعض نے آٹھ ماہ اور بعض نے دوسرى عورتوں كى طرح نو مہينے كہا ہے، ليكن يہ موضوع اس وقعے كے مقصد پر اثر نہيں ركھتا_ روايات بھى اس سلسلہ ميں مختلف ہيں_
اس بارے ميں كہ يہ جگہ""اقصي"" (دور دراز) كہاں تھي، بہت سے لوگوں كا نظريہ يہ ہے كہ يہ شہر ""ناصرہ"" تھا اور شايد اس شہر ميں بھى وہ مسلسل گھر ہى ميں رہتى تھيں اور بہت كم باہر نكلتى تھيں_
جو كچھ بھى تھا مدت حمل ختم ہوگئي اور مريم عليہا السلام كى زندگى كے طوفانى لمحات شروع ہوگئے انہيں سخت درد زہ كا آغاز ہوگيا_ ايسا درد جو انہيں آبادى سے بيابان كى طرف لے گيا_ ايسا بيابان جو انسانوں سے خالي، خشك اور بے آب تھا_جہاں كوئي جائے پناہ نہ تھي_
اگر چہ اس حالت ميں عورتيں اپنے قريبى اعزاء كى پناہ ليتى ہيں تا كہ وہ بچے كى پيدائشے كے سلسلے ميں ان كى مدد كريں، ليكن مريم عليہا السلام كى حالت چونكہ ايك استثنائي كيفيت تھي، وہ ہرگز نہيں چاہتى تھيں كہ كوئي ان كے وضع حمل كو ديكھے، لہذا درد زہ كے شروع ہوتے ہى انہوں نے بيابان كى راہ لي_
قرآن اس سلسلے ميں كہتا ہے:"" وضع حمل كا وہ درد اسے كھجور كے درخت كے پاس كھينچ لے گيا""_ قرآن ميں "" جذع النخلة"" كا لفظ استعمال ہوا ہے ، اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ ""جذع"" درخت كے تنا كے معنى ميں ہے، يہ نشاندہى كرتا ہے كہ: اس درخت كا صرف تنا باقى رہ گيا تھا يعنى وہ خشك شدہ درخت تھا_
قصص القرآن
منتخب از تفسير نمونه
تاليف : حضرت آيت الله العظمي مکارم شيرازي
مترجم : حجة الاسلام و المسلمين سيد صفدر حسين نجفى مرحوم
تنظيم فارسى: حجة الاسلام و المسلمين سير حسين حسينى
ترتيب و تنظيم اردو: اقبال حيدر حيدري
پبليشر: انصاريان پبليكيشنز - قم
متعلقہ تحریریں:
مريم عليہا السلام كى پرورش كے لئے قرعہ كشي
پالنے والے يہ تو لڑكى ہے
حضرت عيسى عليہ السلام اور حضرت مريم عليہا السلام
تابوت كيا ہے؟
طالوت كو ن تھے؟