سید رضی اور تربیتی جلوے
سید رضی ایك آراستہ و پیراستہ شخص تھے نیز افراد كی عظمت و شخصیت كو بھی انسانیت اور معنویت كے اعلیٰ مقام میں دیكھتے تھے ۔ چنانچہ آپ نے اپنی پوری زندگی میں اعتدال كو اپنا مشغلہ بنائے ركھا كیونكہ قانع روح كے ساتھ حقیقی بے نیازی تك پہونچنا چاہتے تھے ۔ آپ نے ہرگز كبھی بھی كسی كی طرف لالچ كا ہاتھ نہیں پھیلایا ۔ یہی وجہ تھی كہ شریف رضی كی عالی طبیعت اور بلند ہمت كو ہر خاص و عام سراہتا تھا ۔ آپ كی اخلاقی خصوصیات كے بارے میں بہت سے واقعات نقل ہوئے ہیں ہم یہاں ایك قضیہ پر اكتفا كر رہے ہیں :
بہاء الدولہ كے وزیر ابی محمدمہلبی سے منقول ہے : وہ كہتے ہیں كہ ایك دن مجھے یہ اطلاع ملی كہ خداوند عالم نے سید رضی كو بیٹا عنایت فرمایا ہے موقع كو غنیمت جانتے ہوئے سوچا كہ اسی مولود كے بہانہ ہی سید رضی سے رابطہ ہو جائے ۔ غلاموں كو طبق لانے كا حكم دیا میں نے دو ہزار دینار اس میں ركھے اور ہدیہ اور مولود كی خوشی میں نظرانہ كی رسم كے عنوان سے ان كی خدمت میں بھیجا سید نے قبول كرنے سے انكار كردیا اور پیغام بھیجا كہ وزیر كو یقینا معلوم ہے اور اگر نہیں معلوم ہے تو جان لیں كہ میں كسی كے احسان كو قبول نہیں كرتا ۔
اپنے اصرار كو نتیجہ بخش بنانے كی امید سے میں نے دوبارہ چاندی اور سونے سے بھرا ہوا طبق بھیجا اور كہلایا كہ اس ناچیز تحفہ كو قبول فرمائیں اور دائیوں كو دے دیں ۔ آپ نے دوبارہ واپس كرادیا اور جواب میں فرمایا كہ دایہ كوئی غیر نہیں ہیں ہمارے یہاں یہ رواج نہیں ہے كہ پرائے لوگ ہمارے گھر كے اندر رفت و آمد ركھیں، دایہ ہمارے عزیزوں میں سے ہیں لہذا وہ بھی كچھ قبول نہیں كریں گی ۔
میں نے تیسری مرتبہ طبق روانہ كیا اور پیغام دیا كہ اگر آپ قبول نہیں كرسكتے تو جو طلاب آپ كی خدمت میں زیر تعلیم ہیں ان كے درمیان تقسیم كردیں ۔ چنانچہ طبق لایا گیا استاد نے طلاب سامنے ركھ كر فرمایا :
تمام طلاب حاضر ہیں اس كے بعد كہا جس كو بھی ان پیسوں كی ضرورت ہے اٹھا لے اس وقت ان میں سے فقط ایك طالب علم نے ایك دینار اٹھایا اور اس میں سے تھوڑا سا كاٹ كر بقیہ ركھ دیا دیگر طلاب نے كچھ بھی نہ لیا ۔
شریف رضی نے اس طالب علم سے پوچھا تم نے كس لیے اتنی مقدار اٹھائی اس نے كہا گذشتہ رات مطالعہ كے چراغ كا تیل ختم ہوگیا اور خادم نہیں تھا جو مدرسہ كے تیل میں سے مجھے دیتا میں نے فلاں بقّال سے اپنے چراغ كے لیے تھوڑا سا تیل قرض لیا تھا ابھی جو میں یہ سونے كا ٹكڑا لیا ہے اس كے ذریعہ میں اپنا قرض ادا كروں گا ۔ سید رضی نے جب یہ بات سنی تو حكم دیا كہ طلاب كی تعداد بھر چابیاں بنوائی جائیں تا كہ اگر كسی كو كوئی ضرورت پیش آئے تو اس كے پاس چابی موجود رہے ۔
مولف: محمد ابراھیم نژاد
مترجم: زهرا نقوی
(گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)
متعلقہ تحریریں:
سید رضی اور سیاسی مكر و فریب
سید رضی اور خدمت كا شیدانہ كہ قدرت كا پیاسا
سید رضی اور ذمہ دار اشعار
سید رضی، علم و معرفت كے دلباختہ
تقدیر بنا دینے والا خواب