چھوڑکے قرآن جہلِ جہاں پر کتنے برس برباد کئے
علم روشنی ہے جہل اندھیرا۔ علم سمجھ تو جہل ناسمجھی۔ علم کے بغیر نہ قول کا بھروسہ نہ عمل کا ٹھکانہ ۔ بے شک علم کا مقام عمل سے پہلے ہے۔ لیکن عمل نہ ہوتوعلم بیکار۔ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’علم عمل سے وابستہ ہے جسے علم ہو گا وہ عمل بھی کرے گا اور علم تو عمل کو پکارتا ہے ۔
اگر عمل اس پر لبیک کہے تو خیر ورنہ علم وہاں سے کوچ کرجاتا ہے۔‘‘ قرآن قول وعمل سے پہلے علم حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے ’’جان لیجیے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ علم باعث فضیلت ہے علم والوں کے درجے بلند ہوتے ہیں۔ ’’اﷲ تم میں ایمان والوں اور ان لوگوں کے جن کو علم عطا ہوا۔ درجے بلند کرے گا اور اﷲ کو تمہارے اعمال کی سب خبر ہے۔‘‘ علم ایک ایسی نعمت ہے جس سے انسان کے اندرحق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔اس کی شخصیت میں نکھارآتا ہے اور غوروفکر کی نئی راہیں ملتی ہیں ۔اسی لئے اﷲ نے اپنے رسول کو بھی حکم دیا کہ آپ اپنے علم میں اضافے کی دُعا مانگتے رہیں۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ اﷲ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ ’’آپ نے بعض اوقات علم کو عبادت اور کچھ موقعوں پر اسے عبادت سے بھی افضل قراردیا۔ مدینہ منورہ میں آپ نے اشاعت علم کی طرف خاص توجہ فرمائی جنگ بدرمیں گرفتار کئے گئے قیدیوں سے جو زرفدیہ ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں اور رہا ہو کر واپس چلے جائیں۔ جنگی اور سیاسی حکمت عملی کے مدنظر یہ اقدام کسی طرح خطروں سے خالی نہ تھا لیکن علم ایسی نعمت ہے کہ اس کے لئے بڑے سے بڑا خطرہ بھی مول لیا جا سکتا ہے۔
‘‘قرآن علم اور ہدایت کا اصل منبع ہے ۔ وہ تمام خرابیاں جو آج ہمارے اندر سرایت کئے ہوئے ہیں۔ ان کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ہم قرآن سے دور ہو گئے ہیں۔ بے سمجھے قرآن کو پڑھنا بھی قرآن سے دوری ہی کے مترادف ہے۔ قرآن کتاب ہدایت ہے یہ قرآن تو بس سارے جہان کے لئے نصیحت ہے۔ ہدایت علم باعمل کا دوسرا نام ہے جو ہدایت حاصل کرلیتے ہیں وہی عالم باعمل کہلاتے ہیں ۔قرآن کے ہدایت کی کتاب ہونے کا مطلب یہی ہے کہ اس میں جو علم ہے وہ برائے ہدایت ہے اور یہ علم عمل کا مطالبہ کرتا ہے۔ قرآن کے تصور علم کی بنیاد وحدانیت ہے۔ یعنی الٰہ تو بس وہی ہے۔
وہی یعنی اﷲ جو پوری کائنات کا خالق ہے۔ تمام مخلوقات کا پالنے والا ہے اور سب کو اسی کی طرف پلٹ کے جانا ہے۔ اسی کی ذات تمام خوبیوں اور حسن کا سرچشمہ ہے۔ اس کی مرضی، قانون فطرت بھی ہے اور قانون اخلاق بھی درحقیقت اسی کی ذات اور اسی کی قدرت ہر علم کی اصل ہے وہ فرماتا ہے کہ
’’اگر ایک اﷲ کے علاوہ اور بھی الٰہ ہوتے تو زمین اور آسمان میں فساد برپا ہو گیا ہوتا۔ ‘‘
التنزیل ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں:
حاکميت قرآن
معاشرے ميں تلاوت قرآن کے اثرات
عوام قرآن سے سبق حاصل کريں
قوميں قرآن کي محتاج ہيں
قرآن مجيد ذريعہ نجات