• صارفین کی تعداد :
  • 2205
  • 2/19/2011
  • تاريخ :

پیغمبر کا دفاع کرنے والوں کی شجاعت

بسم الله الرحمن الرحیم

درہ میں چند افراد باقی رہ گئے تھے اور ایسی شجاعت کے ساتھ دشمن کے پے درپے حملہ کو دفع اور پیغمبر سے دفاع کر رہے تھے جس کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ علی نے ایک لحظہ کے لیے بھی میدان کو نہیں چھوڑا۔ آپ اپنی تلوار سے پے درپے دشمن کے سر پر موت کا مینہ برسا رہے تھے اور ایک دستہ کو قتل کرکے دوسرے دستہ کو فرار پر مجبور کر رہے تھے۔

حضرت علی نے بہت زخم کھائے تھے لیکن پھر بھی نہایت تیزی کے ساتھ شیر کی طرح غرا کر شکار پر حملہ کرتے تے اور پروانہ وار پیغمبر کے گرد چکر لگا رہے تے مبادا کوئی ان کی شمع وجود کو جو نور خدا ہے۔ خاموش نہ کر دے ایسا منظر بار بار آتا رہا خدا اس بہادری کا شاہد ہے۔

جبرئیل نے آسمان سے آواز بلند کی۔

لافتی الاعلی لاسیف الاذوالفقار

اور تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔ اہلسنّت کے مورخ ابن ہشام لکھت ہیں کہ احد کے جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قریش کے زیادہ تر افراد قتل ہوئے۔

(سیرة ابن ہشام ج۲ ص ۱۰۰)

احد کے معرکہ میں بہادری کا جوہر دیکھانے والوں میں سے جناب حمزہ بن عبدالمطلب سردار لشکر اسلام بھی تھے جنہوں نے رسول خدا کا دفاع کرتے ہوئے بہت سے مشرکین کو واصل جہنم کیا ابوسفیان کی بیوی ہند نے وحشی سے جو جبیر ابن مطلعم کا غلام تھا یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر تم محمد، حمزہ، یا علی کو قتل کر دو ت آزاد ہو جاؤ گے۔ وہ رسول خدا تک ت نہ پہنچ سکا اور علی علیہ السلام بھی میدان جنگ میں ہر طرف سے چوکنہ تھے۔ اس نے جب جناب حمہ کو دیکھا کہ وہ شدت غیظ و غضب میں اپنی طرف سے بے خبر ہیں تو وہ ان کا تعاقب کرنے لگا جناب حمزہ شیر کی طرح قلب لشکر پر حملہ کر رہے تے اور جس شخص تک پہنچتے اس کو خاک و خون میں غلطاں کر دیتے تھے۔

وحشی ایک پتھر کی آڑ میں چھپ گیا اور جب حمزہ مصروف جنگ تھے اس وقت اس نے اپنے نیزہ کا نشانہ ان کی طرف لگا کر ان کو شہید کر دیا۔ اور ابوسفیان کی بیوی نے جناب حمزہ کے جسم پاک کو مثلہ کیا۔

لشکر توحید کا دفاع کرنے والوں میں سے ایک ابودجانہ بھی تھے مسلمانوں کے میدان جنگ میں واپس آجانے کے بعد جب آتش جنگ دوبارہ بھڑکی تو رسول خدا نے ایک تلوار لی اور فرمایا کہ: کون ہے جو اس تلوار کو لے اور اس کا حق ادا کرے؟ چند افراد اٹھے، لیکن ان میں سے کسی کو آپ نے تلوار نہیں دی اور پھر اپنی بات دہرائی۔ اس دفع ابودجانہ اٹھے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ میں آمادہ ہوں۔

پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اس شمشیر کا حق یہ ہے کہ اسے دشمن کے سر پر اتنا مارو کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے اور سا بات سے مکمل طور پر ہوشیار رہو کہ کہیں دھوکہ میں تم کسی مسلمان کو قتل نہ کر دینا۔ یہ کہہ کر آپ نے وہ تلوار ان کو عطا فرمائی۔

(سیرة ابن ہشام ج۲ ص ۶۸)

ابودجانہ نے ایک سرخ رنگ کا کپڑا اپنے سر پر باندھا اور دشمن کی طرف مغرور حملہ آور ہوئے۔ رسول خدا نے فرمایا کہ اس طرح کی چال کو خدا دشمن رکھتا ہے مگر یہ کہ جنگ کہ ہنگام ہو، ابودجانہ نے راہ خدا میں قلب دشمن پر حملہ کیا اور ان کے سروں پر اتنی تلوار ماری کہ تلوار خم ہوگئی۔

عنوان : تاریخ اسلام

پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان

بشکریہ پایگاہ اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی


متعلقہ تحریریں :

جنگ کیسے شروع ہوئی؟

منافقین کی خیانت

لشکر توحید کے کیمپ میں

فیصلہ کن ارادہ

مدینہ میں تیاریاں