کرہ ارض کا مرکز ( حصّہ چہارم )
اسی طرح جب آپ کعبہ کا طواف کرتے ہیں تو آپ اپنے اندر ایک توانائی داخل ہوتے ہوئے محسوس کرتے ہیں ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ آپ زمین کے مقناطیسی میدان کی قوت کے اثرسے باہر ہوتے ہیں اورسائنسی بنیادوں پر یہ بات ثابت شدہ ہے۔علاوہ ازیں مکہ کی کالی بسالٹ چٹانوں کے ٹکڑوں کو لیبارٹری میں لے جا کر چیک کیا گیا ہے اور یہ بات معلوم کر لی گئی ہے کہ یہ زمین کی سب سے قدیم ترین چٹانیں ہیں۔ مصر کے ڈاکٹر عبدالباسط کی گفتگو سے ثابت ہوتا ہے کہ کعبہ ناصرف زمین کا مرکز ہے بلکہ یہ پوری کائنات کا مرکز بھی ہے کیونکہ اس کی سیدھ میں بالکل اوپر آسمانی کعبہ یعنی بیت المعمور ہے۔ مختلف روایات و احادیث سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیت المعمور، زمینی کعبہ کی سیدھ میں بالکل اوپر ہے۔ اگر وہ اوندھے منہ گرے تو سیدھا اس کے اوپر گرے۔
ہر روز 70 ہزار فرشتے اس میں آتے ہیں جب وہ وہاں سے جاتے ہیں تو پھر ان کی باری نہیں آتی۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں بھی مکہ کو ”ام القری“ کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ مکہ ان شہروں کی ماں ہے جو سب اس کے اردگرد ہیں۔ اس آیت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ مکہ تمام شہروں کے درمیان میں ہے۔
اسلامی معاشرے میں ماں کے لفظ کی ایک خا ص اہمیت ہے۔ آل و اولاد کا سلسلہ ماں سے ہی چلتاہے۔ چناچہ مکہ کو شہروں کی ماں کا نام دینے سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ زمین کے بقیہ حصے بھی اسی سے پھیلے یا اس کے بعد وجود میں آئے اور یہی بات سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے۔ مکہ ایک محفوظ اور پرامن شہر ہے۔
قرآن میں اس کو ”بلد الامین“ بھی کہا گیا ہے۔ یہاں کسی چرند پرند کو بھی نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔ یہ تمام اطراف سے اونچے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کبھی کبھار کم درجے کے زلزلے ہی آتے ہیں۔ مزید برآں چونکہ اس شہر کا درجہ حرارت عموماً زیادہ رہتا ہے اسی وجہ سے یہاں زمینی پرت (Crust) کے نیچے چٹانیں چپکنے والی اور لیس دار ہیں، اس وجہ سے بھی مستقبل میں اگر کبھی یہاں زلزلہ آیا تو اس کی شدت کم ہی رہے گی۔ کعبہ کی ایک اور اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمان اس کے گرد طواف کرتے ہیں۔ طواف کا آغاز حجر اسود والی جگہ سے کیا جاتا ہے۔ حاجی یہ طواف اینٹی کلاک وائز (مخالف گھڑی وار) کرتا ہے اوریہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کائنات میں ایٹم سے لے کر کہکشاوں تک ہر چیز اینٹی کلاک وائز حرکت کر رہی ہے۔ ایٹم کے اندر الیکٹرونز، نیوکلئس کے گرد اینٹی کلاک وائز گردش کرتے ہیں۔ زمین کی تمام پلیٹیں عربین پلیٹ کے گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتی ہیں۔ انسانی جسم کے اندر سائیٹوپلازم، سیل کے نیوکلئس کے گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتا ہے۔ پروٹین مالیکیولز بھی بائیں سے دائیں طرف اینٹی کلاک وائز ہی حرکت کرتے ہوئے ترتیب پاتے ہیں۔ ماں کے رحم کے اندر بیضیٰ انثیٰ بھی اپنے ہی گرد حرکت اینٹی کلاک وائز ہی کرتا ہے۔ مرد کی منی کے اندرجرثومہ بھی اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتے ہوئے بیضیٰ انثی تک پہنچتا ہے۔ انسانی خون کی گردش بھی اینٹی کلاک وائز ہی شروع ہوتی ہے۔ زمین اپنے گرد اور سورج کے گرد بھی انیٹی کلاک وائز ہی حرکت کرتی ہے۔ سورج اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتا ہے۔ سورج اپنے تما م نظام شمسی سمیت ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے گرد اینٹی کلاک وائز گردش کرتا ہے۔ کہکشاں خود اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز گردش کرتی ہے۔ چناچہ ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان جب کعبہ کا طواف کرتا ہے تو وہ اسی طرح اپنے رب کی طرف سے عائد کی گئی ڈیوٹی کو نبھاتا ہے کہ جس طرح ایٹم سے لے کر کہکشاوں تک، سب اپنے رب کے حکم کے آگے سراطاعت خم کیے ہوئے ایک ہی سمت میں محو گردش ہیں۔ اس سے اسلام کا امیتاز اور برتری دوسرے مذاہب کی نسبت نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔
( جاری ہے )
بشکریہ : التنزیل ڈاٹ کام
متعلقہ تحریریں:
کرہ ارض کا مرکز ’گرینچ‘ یا ’مکة المکرمہ ؟
فیس بک کی مقبولیت ہیکرز کے لیے فائدہ مند ہے
خلاء سے آسمانی بجلی کی نشاندہی کا منصوبہ
زمین جیسی کھربوں دنیائیں
خوراک کو محفوظ کرنے کے طریقے