• صارفین کی تعداد :
  • 2270
  • 2/9/2011
  • تاريخ :

حاکميت قرآن (حصّہ دوّم)

قرآن

مغربي تسلط اور صليبي وصہيوني ہمہ جہت حملوں سے پہلے اگرچہ حقيقي معنوں ميں قرآن زندگي کے ميدان سے غائب تھا مگر يہ ضرور ہے کہ مسلمانوں کے دل و دماغ پر کم و بيش اس کا ايک اثر باقي تھا اور صليبي اور صہيوني حملہ آور اسے بھي برداشت نہ کرسکے۔

جس قرآن کا واضح حکم يہ ہے کہ ان کے مقابلے کے لئے جتني قوت اور جتنے رہواروں کي طاقت تم سے جمع ہوسکے جمع کرو۔ (سورہ انفال)


جو قرآن فرماتا ہے کہ ہرگز کافروں کو مومنوں پر غلبہ نہيں دے گا (سورہ نساء)


اور جو قرآن مومنوں کو ايک دوسرے کا بھائي، دشمنوں پر سخت گراں اور غضبناک ديکھنا پسند کرتا ہے( ماخوذ از سورہ فتح)

وہ قرآن ايسے لوگوں کے لئے ناقابل برداشت تھا جو مسلمانوں کے معاملات کي باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لے کر۔ان پر تسلط حاصل کرکے ان کا سب سے کچھ بتاہ کرنا چاہتے تھے۔يہ اقتدار حاصل کرنے والے اچھي طرح سمجھ چکے تھے کہ عوام کي اپني زندگي ميں قرآن سے تھوڑي سي بھي وابستگي ان کے اقتدار اور اثرو نفوز کے راستے کو ناہموار بنا دے گي۔ لہٰذا انھوں نے قرآن کو يکسر مٹا دينے کا منصوبہ بنايا۔ ليکن يہ منصوبہ کسي صورت عملي جامہ نہ پہن سکے گا۔ خدا نے امت اسلاميہ سے قرآن کي دائمي حفاظت کا وعدہ فرمايا ہے۔ اس کے باوجود دشمنوں کے اس مقصد کو انجام تک پہنچانے کے ارادے اور اس کے نتائج واثرات کو نظرانداز نہيں کرنا چاہئے۔

آج مسلمانوں کي زندگي پر ايک نظر ڈالئے، قرآن کہاں نظر آتا ہے؟ کيا سرکاري اداروں ميں ہے؟ کيا اقتصادي نظام ميں ہے کيا روابط کے نظم و نسق اور عوام کے باہمي تعلقات ميں ہے؟ اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں ہے؟ خارجہ سياست يا حکومتوں سے تعلقات ميں ہے؟ قومي سرمائے کي تقسيم ميں ہے؟ اسلامي معاشرے کے سربراہوں کے عادت و خصائل ميں، اقوام و ملل کے مختلف طبقات ميں جن کے کم و بيش اثرات ہيں، کہيں قرآن نظر آتا ہے۔

مسلمان عوام کي انفرادي رفتار ميں، زن ومرد کے روابط ميں،خوراک ولباس ميں کہيں قرآني تعليمات کي کوئي جھلک نظر آتي ہے؟ اقتدار کے ايوانوں ميں، امانتوں اور بينک ڈاپازٹ ميں، انسانوں کي عوامي اور سماجي تحريکات ميں قرآن کريم کہا ہے؟

زندگي کے اتنے ميدان ہيں۔ مسجدوں اور ميناروں، عوام فريبي اور رياکاري کے لئے ريڈيو کے چند پروگراموں ميں البتہ قرآن دکھائي ديتا ہے۔ مگر کيا قرآن فقط اسي لئے ہے؟سيد جمال الدين سو برس پہلے اس بات پر روئے تھے، انھوں نے رلايا تھا کہ قرآن ہديہ دينے اور آرائش و زينت، قبرستان ميں تلاوت کرنے، طاقوں ميں رکھنے کے لئے رہ گيا ہے۔

بتائے کيا ان سو سالوں ميں کوئي فرق پڑا ہے؟ کيا امت قرآن کي حالت پريشان کن نہيں ہے؟

بات يہ ہے کہ قرآن انساني زندگي کي کتاب ہے اور انسان کي کوئي حد تک ہے۔ انسان مسلسل ترقي کي حالت ميں ہے۔ انسان کي بہت سي جہتيں ہيں۔ وہ انسان جس کي ترقي پذيري کي حد اور سرحد نہيں، ہر زمانے ميں قرآن اس کا رہنما، معلم اور دستگير ہے۔ انسان کو ايک مہذب اور مطلوب زندگي فقط قرآن ہي کے ذريعے سکھائي جا سکتي ہے۔ ظلم، نسلي امتياز، فتنہ وفساد، جھگڑے، سرکشي، ناروائي، رسوائي، خيانت جو انساني تاريخ کے طويل درو ميں ہوئي اور انسان کي نشونما اور ترقي ميں رکاوٹ بني ہے، اسے قرآن ہي کے ذريعہ دور کيا جا سکتا ہے۔ قرآني ہدايت اور رہنماہي انساني زندگي کا منشور بناتي ہے۔

قرآن کي طرف رجوع انسان کي مطلوب اور پسنديدہ زندگي کي طرف رجوع ہے۔ اس عمل کي ذمہ داري قرآن پرايمان رکھنے والوں پر عموماً اور قرآن شناس حضرات پر بالخصوص عائد ہوتي ہے۔ يہ علماء اور خطباء کي ذمہ داري ہے۔

قرآن کي طرف رجوع ايک نعرہ ہے، يہ نعرہ اگر حقيقت کا روپ اختيار کر لے تو يہ حقيقت حق و باطل کو جدا کردے۔ جو قوتيں قرآن کي طرف بازگشت کو برداشت نہيں کرسکتيں، مسلمانوں کو چاہئے کہ ايسي قوتوں کو بر داشت نہ کريں۔

 

ولي امر مسلمین حضرت آیت اللہ سید علي خامنہ اي کے خطاب سے اقتباس


متعلقہ تحریریں:

قوميں قرآن کي محتاج ہيں

قرآن مجيد ذريعہ نجات

قرآن اور علم

قرآن و سنت کی روشنی میں امت اسلامیہ کی بیداری

”فطرت“ قرآن ميں