حالی کے نظم فکری کا جائزہ (حصّہ دوّم)
مغربی اقوام کی اصلیت
اس طرح مغربی اقوام کی تہذیب و تمدن اور انسانی ہمدردی کے چہر ے کو بے نقاب کرتے ہیں تو ان اقوام کا اصلی روپ سامنے آ جاتا ہے۔ جس کا مظاہرہ انہوں نے دور حالی میں بھی مسلمان قوم کے ساتھ بالخصوص اور دیگر اقوام کے ساتھ بالعموم کیا اور آج بھی یہی بظاہر ترقی یافتہ، تہذیب یافتہ اور انسانی حقوق کی علمبرداری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے جس طرح انسانی خون سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور انسانی گوشت اور ہڈیوں کو نوچتی ہیں اُن کے چہرے کو بڑے واضح طور پر بے نقاب کیا ہے۔
وہ قومیں جو ہیں آج غم خوار انساں درندوں کی اور ان کی طینت تھی یکساں جہاں عد ل کے آج جاری ہیں فرماں بہت دور پہنچا تھا وہاں ظلم و طغیاں بنے آج جو گلہ باں ہیں ہمارے وہ تھے بھیڑیے آدمی خوار سارے ہمارے اسلاف نے حالی کی طرح تاریخی واقعات کی روشنی میں ان اقوام کی حقیقی چہرے کا پردہ فاش کر دیا تھا۔ لیکن مسلمان آج بھی ان کے چبائے ہوئے نوالوں کی امید میں دست نگر بنی بیٹھی ہے۔ ان کی تہذیب و تمدن مسلمانوں کے لئے وبال ہے۔ اگرچہ انہوں نے مسلمانوں ہی کے ورثے کو بروئے کار لاتے ہوئے آج ترقی کے تمام زینے طے کر لئے ہیں۔
اسلام کا شاندار ماضی
اس طویل نظم میں مولانا حالی نے مسلمانوں کو شاندار ماضی کی تاریخ کو اور ماضی کے کارہائے نمایاں کو بیان کرکے مسلمان قوم کو غیرت دلانے کی سعی کی ہے۔ خلافت اندلس کے حوالے سے مسلمان قوم کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں اور خلافت اندلس کی جھلک ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ ہوا اندلس ان سے گلزار یکسر جہاں ان کے آثار باقی ہیں اکثر جو چاہے کوئی دیکھ لے آج جا کر ہے یہ بیت ِ حمر اکی گویا زباں پر کہ تھے آل عدنان سے میر ے بانی عرب کی ہوں میں اس زمیں پر نشانی
مولانا حالی نے اسلام کی تعلیمات کا ذکر بھی تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ نبی کریم کی ذات و برکات کے طفیل ایسا عظیم انقلاب برپا ہوا جس کے اثر عرب کے رہنے والے جو جانوروں سے بد تر زندگی گزار رہے تھے ۔ صحیح معنوں میں انسان بن گئے ۔ سرورِ کونین نے صرف عبادات پر ہی زور نہیں دیا بلکہ زندگی کے تمام پہلوئوں میں انسانیت کی مکمل رہنمائی فرمائی ۔ اور اسے دینی، تہذیبی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی، ادبی اور تقافتی اصولوں کا یک مکمل ترین منشور عطا فرمایا۔ نتیجہ یہ ہو ا کی مسلمان ابر رحمت کی مانند تما م دنیا پر چھا گئے۔ اور جہالت و گمراہی کی اتھاہ تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی اقوام کو جہانداری اور جہانبانی کے اصولوں سے واقف و آشنا کیا۔
گھٹا اک پہاڑوں سے بطخا کے اُٹھی پڑی چار سو یک بیک دھوم جس کی کڑک اور دمک دور دور اس کے پہنچی جو ٹےگس پہ گرجی تو گنگا پہ برسی رہے اُس سے محروم آبی نہ خاکی ہر ی ہو گئی ساری کھیتی خدا کی مسلمانوں نے دنیا کو اصولِ تجارت سے آشنا کیا۔ سیر و سیاحت کو فروغ دیا ۔ نئے نئے ممالک دریافت کئے۔ انھوں نے دنیا والوں کو ریاضی، فلسفہ، طب، کیمیا، ہندسہ، ہیئت، سیاحت، تجارت، معماری، نقاشی، اور جراحی جیسے علوم علوم و فنون سے آگا ہ گیا۔ اور واقعتا مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے ان کا جمود توڑنے اور انہیں سعی و کوشش کی جانب مائل کرنے میں اس نظم کا بہت بڑا حصہ ہے۔
متعلقہ تحریریں:
ہائیکو نگاری کے تسلسل میں ‘ ٹھنڈاسورج’
حالی کے نظم فکری کا جائزہ
مسدس حالی
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کنار راوی