کنار راوی
سکوت شام میں محو سرود ہے راوی
نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی
پیام سجدے کا یہ زیر و بم ہوا مجھ iiکو
جہاں تمام سواد حرم ہوا مجھ iiکو
سر کنارۂ آب رواں کھڑا ہوں میں
خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں iiمیں
شراب سرخ سے رنگیں ہوا ہے دامن شام
لیے ہے پیر فلک دست رعشہ دار میں iiجام
عدم کو قافلۂ روز تیز گام چلا
شفق نہیں ہے ، یہ سورج کے پھول ہیں iiگویا
کھڑے ہیں دور وہ عظمت فزائے تنہائی
منار خواب گہ شہسوار iiچغتائی
فسانۂ ستم انقلاب ہے یہ محل
کوئی زمان سلف کی کتاب ہے یہ iiمحل
مقام کیا ہے سرود خموش ہے iiگویا
شجر ، یہ انجمن بے خروش ہے گویا
رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂ iiتیز
ہوا ہے موج سے ملاح جس کا گرم ستیز
سبک روی میں ہے مثل نگاہ یہ کشتی
نکل کے حلقۂ حد نظر سے دور گئی
جہاز زندگی آدمی رواں ہے iiیونہی
ابد کے بحر میں پیدا یونہی ، نہاں ہے iiیونہی
شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں iiہوتا
نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں
شاعر کا نام : علامہ محمد اقبال ( iqbal )
کتاب کا نام : بانگ درا ( bang e dara )
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
داغ
نیا شوالہ
ہندوستانی بچوں کا قومی گیت
صبح کا ستارہ
جگنو
ترانۂ ہندی
سرگزشت آدم
بلال-رضہ-
چاند
نالۂ فراق