• صارفین کی تعداد :
  • 2354
  • 3/4/2009
  • تاريخ :

نالۂ فراق

(آرنلڈ کی یاد میں)

 فراق

جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں

آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سرزمیں

آ گیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں

ظلمتِ شب سے ضیائے روزِ فرقت کم نہیں

تا  ز آغوشِ  وداعش داغِ حیرت چیدہ است
ہمچو شمعِ کشتہ درچشم نگہ خوابیدہ است

کشتۂ عزلت ہوں، آبادی میں گھبراتا ہوں میں

شہر سے سودا کی شدت میں نکل جاتا ہوں میں

یادِ ایّامِ سلف سے دل کو تڑپاتا ہوں میں

بہرِِ تسکیں تیری جانب دوڑتا آتا ہوں میں

آنکھ گو مانوس ہے تیرے در و دیوار سے
اجنبیت ہے مگر پیدا مری رفتار سے

ذرّہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا

آئینہ ٹوٹا ہوا عالم نما ہونے کو تھا

نخل میری آرزوؤں کا ہرا ہونے کو تھا

آہ! کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا

ابرِ رحمت دامن از گلزارِ من برچید و رفت
اند کے برغنچہ ہائے آرزو بارید و رفت

تو کہاں ہے اے کلیمِ ذردۂٔ سینائے علم

تھی تری موجِ نفس بادِ نشاط افزائے علم

اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائی صحرائے علم

تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم

"شورِ لیلٰی کو کہ باز آرائشِ سودا کند
"خاکِ مجنوں را غبارِ خاطرِ صحرا کند

کھول دیگا دستِ وحشت عقدۂ تقدیر کو

توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو

دیکھتا ہے دیدۂ حیراں تری تصویر کو

کیا تسلّی ہو مگر گرویدۂ تقریر کو ؟

"تابِ گویائی نہیں رکھتا دہن تصویر کا

"خامشی کہتے ہیں جس کو ہے سخن تصویر کا

 

شاعر کا  نام : علامہ محمد اقبال ( iqbal )

کتاب کا نام : بانگ درا  ( bang e dara )

پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان